انسانی حقوق کی پامالی کارروائی کیوں نہیں ہورہی؟

ایک اور کمسن گھریلو ملازمہ سنگ دلی کی بھینٹ چڑھ گئی، بے رحم فیملی نے مبینہ طور پربہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ دس سالہ عائشہ فیصل آباد میں فضل الرحمن  کے گھر ملازمہ تھی۔ گھر والوں نے کمسن عائشہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، مالکان نے خود ہی بچی کو تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بچی دم توڑ گئی۔ گھریلو ملازموں پر تشدد کے واقعات عموماً رپورٹ ہوتے رہتے ہیں مگر سارے کے سارے رپورٹ نہیں ہوتے، جتنے بھی رپورٹ ہوتے ہیں سفاکیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور عموماً گھریلو خواتین اور مرد کم سن بچوں اور بچیوں پر تشدد کرتے ہیں۔ کئی کوتو جلا تک بھی دیا جاتا ہے۔ شدید زخمی ہونے کی رپورٹس میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ بہت سے ایسے کیسز بھی ہیں کہ تشدد کا نشانہ بننے والے پولیس تک رپورٹ نہیں کراتے۔ البتہ جو کیس رپورٹ ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے انسانیت سوز ہوتے ہیں جو درد دل رکھنے والوں کو لرزا دیتے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں مبینہ طور پر بچی کو تشدد کے بعد ہسپتال پہنچایا گیا۔ جن لوگوں کی طرف سے تشدد کیا گیا وہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں تاہم کسی بھی کارروائی سے پہلے مکمل تحقیقات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ البتہ اس جرم کی تو یہ فیملی ضرور مرتکب ہوئی ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دس سال کی بچی کوملازمت پر رکھا۔ تشدد کا ایک اس سے مختلف نوعیت کا واقعہ ٹیکسلا میں بھی پیش آیا ہے جہاں ایک پولیس اہلکار نے ایک بزرگ خاتون کو تھپڑمارا اور دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ واقعے میں ملوث اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) امتیاز ناصر کو معطل کردیا گیا ہے۔ نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف اس واقعے کی مذمت کی گئی اور نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی سے رابطہ کر کے ان سے خاتون کو انصاف دلانے کی درخواست کی گئی۔ افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے ہاں حکومت اور اداروں کی انسانی حقوق پر بہت کم توجہ ہے اس لیے ایسے واقعات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ سفاکانہ واقعات کی روک تھام کے لیے کہیں سے تو شروعات کرناہوں گی کیوں نہ انھی واقعات سے کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن