نو منتخب ارکانِ پارلیمان کی حلف برداری اور باہمی چپقلش

پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں میں نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے موقع پر جس قسم کے رویے دیکھنے میں آئے انھیں کسی بھی صورت میں مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی میں تقریبِ حلف برداری تھی تو وہاں افتتاحی اجلاس میں ہی پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مسلم لیگ (ن) کی نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز حلف اٹھانے کے لیے ایوان میں پہنچیں تو لیگی اراکین جو پارٹی قائد نواز شریف کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھے انھوں نے شیر شیر کے نعرے لگائے۔ اجلاس کے آغاز پر ہی سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مخصوص نشستوں کا معاملہ ایوان میں اٹھا یا۔ رانا آفتاب احمد خان نے کہا کہ سب جماعتوں کی مخصوص نشستوں کا اعلان ہوچکا ہے ہمارا اعلان ہونا باقی ہے، اس لیے حلف روکا جائے۔ اس معاملے پر ایوان میں تکرار شروع ہوئی اور بعد ازاں مخالفانہ نعرے بازی شروع ہوگئی، سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے جس کے جواب میں لیگی ارکان گھڑی چور کے نعرے لگاتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نعرے بازی کے دوران گھڑیاں بھی لہراتے رہے۔
اسی طرح، ہفتے کے روز جب سندھ اسمبلی میں نئے منتخب ہونے والے ارکان کی حلف برداری ہونا تھی تو وہاں بھی سیاسی مخالفین کے مابین شدید تناؤ کا ماحول دیکھنے کو ملا۔ سندھ اسمبلی میں حلف برداری کے دوران اپوزیشن رہنمائوں نے احتجاج کیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ اس دوران سپیکر آغا سراج درانی غصہ ہوگئے ہیں اور احتجاجی رہنماؤں کو خاموش رہنے کی ہدایات کرتے رہے۔ آغا سراج درانی نے ایوان میں شور کرنے پر ارکان کو ڈانٹ پلا دی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں قانونی کارروائی کرنے دیں، لوگ خاموش ہوجائیں ورنہ گیلری خالی کرادوں گا۔ اسمبلی کے اندر یہ ماحول تھا تو اسمبلی کے باہر قومی عوامی تحریک کے ارکان احتجاج کررہے ہیں جن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے 10 کارکنان کو حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب کراچی کی مختلف شاہراہوں پر مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے باعث مختلف مقامات پر ٹریفک جام رہی۔ کراچی میں شارع فیصل پر نرسری کے مقام پر احتجاج کے باعث نرسری سے ایف ٹی سی تک ٹریفک کی روانی شدید متاثر رہی جبکہ کارساز پر بھی جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کا احتجاج ہوا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر شیلنگ کی جس دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کے بعد مظاہرین طارق روڈ کی جانب روانہ ہوگئے جس کی وجہ سے مختلف شاہراہوں پر ٹریفک مزید جام ہوگیا۔ اس کے علاوہ، الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر مظاہرین نے ٹول پلازہ پر بھی احتجاج کیا جس سے کراچی حیدرآباد موٹر وے پر ٹریفک معطل ہوگئی۔ اسی طرح، شارع فیصل پر احتجاج کی وجہ سے مسافروں کو کراچی ائیرپورٹ پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے جس وجہ سے فلائٹ شیڈول بری طرح متاثر ہوا، فلائٹ شیڈول متاثر ہونے سے کراچی سے دبئی، کراچی سے مسقط، کراچی سے لاہور اور کراچی سے اسلام آبادکی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔
مذکورہ دو اسمبلیوں کے نو منتخب ارکان کے بعد اب 28فروری کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں میں بھی نئے ارکان کی حلف برداری ہونی ہے اور انھی دنوں میں کسی وقت قومی اسمبلی کا اجلاس بھی متوقع ہے۔ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں میں حلف برداری کے موقع پر جو ماحول دیکھنے کو ملا امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی اسی قسم کا ماحول نظر آئے گا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں ماحول نسبتاً بہتر نظر آنے کی توقع ہے کیونکہ وہاں سیاسی اختلافات کے باوجود سیاسی اکثریت اور اقلیت اس قدر فرق کے ساتھ موجود ہیں کہ مؤخرالذکر کے لیے یہ قریب قریب ناممکن ہے کہ اول الذکر کے لیے کوئی مسائل پیدا کرسکے لیکن بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام نے گیارہ نشستیں جیتیں ہیں اور مخصوص نشستیں اس کے علاوہ ہوں گی، یوں وہاں بھی ارکان کے مابین چپقلش کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
دو صوبائی اسمبلیوں میں حلف برداری کے موقع پر جو ماحول نظر آیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی تو پانچ سال کے دوران وہاں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے اور ان کی عوامی مسائل پر کتنی توجہ ہوگی۔ یہ نہایت افسوس ناک صورتحال ہے کیونکہ ارکانِ پارلیمان نے خود بھی منتخب ہونے کے لیے انتخابات پر کروڑوں روپے فی کس خرچ کیے ہیں اور قومی خزانے سے بھی اربوں روپے انتخابات کے انعقاد پر صرف ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں، لاکھوں افراد نے اس کام کے لیے مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں انجام دیں۔ اس سب کا مقصد یہ ہرگز نہیں تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کچھ افراد کو محض اس مقصد کے لیے اکٹھا کردیا جائے کہ وہ اپنے اپنے قائدین کے حق میں اور مخالفین کے خلاف نعرے بازی کرتے رہیں۔ نو منتخب ارکان کو چاہیے کہ وہ بطور رکنِ پارلیمان اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں جانیں اور ملک اور قوم کی خدمت کے لیے اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کریں تاکہ انھیں دیکھ کر عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد بحال ہو۔

ای پیپر دی نیشن