مقتدر قوتیں‘ متروکہ روایات اور نئے حقائق 

وجہ بہت سادہ اور بنیادی تھی۔ٹی وی کی انتخابی نشریات کیلئے لاہور گیا تو سات فروری کی رات سے آٹھ فروری کی شام تک اپنے آبائی شہر کے پرانے محلوں اور چند جدید بستیوں میں نوجوان رپورٹروں کی طرح گھومتا رہا۔ بھول گیا کہ جس لاہور میں رات گئے تک گلیوں اور بازاروں میں گھومتا تھا اس کے چاروں طرف باغ تھے۔ان میں مہک دار پھولوں کی کیاریاں ہوتی تھیں۔ تنگ گلیوں میں واقع گھروں سے نکلا گندا پانی ایک منظم انداز میں تیزی سے بہتی نالیوں کے ذریعے ’’بدرو(گندانالہ)‘‘تک پہنچتا تھا جس کی روزانہ صفائی ہوتی تھی۔ محلوں اور بازاروں میں گردکو ’’بٹھانے‘‘ کے لئے صبح شام پانی کا چھڑکائو لازمی تصور کیا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے جو حماقت سرزد ہوئی اس کے نتیجے میں بالآخر گرد کی تہیں نظام تنفس میں جم گئیں۔سینہ جکڑ گیا تو اسلام آباد لوٹتے ہوئے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ بجائے ادویات پر انحصار کے صبح شام بھاپ کے ذریعے نظام تنفس میں جمع ہوئے فضلے کے اخراج کو ترجیح دی جائے۔ ’’بھاپ لینے‘‘ کا تصور آتے ہی مجھ پرانی وضع کے شخص کو یاد فقط یہ رہتا ہے کہ ہمارے بچپن میں کیتلی ہوتی تھی۔اس میں ہماری مائیں پانی ابالتی تھیں۔ ابالتے ہوئے اس میں آٹے کا چھان بھی مکس کردیا جاتا۔اس کے بعد ہم کیتلی کو کسی پیڑھی پر رکھ کر اپنے سرکو تولیے یا کمبل سے ڈھانپ کر کیتلی کا ڈھکن اٹھانے کے بعد بھاپ لینا شروع کردیتے تھے۔ بھاپ لینے کے اس کے علاوہ کسی اور طریقے کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔حادثہ ہوجانے کے بعد البتہ علم ہوا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے بازار میں ایسی مشینیں مجھ جیسے کم آمدنی والوں کے لئے بھی سستے داموں دستیاب ہیں جنہیں بجلی کے پلگ سے لگاکر جب چاہو بھاپ لی جاسکتی ہے۔
بہرحال جمعہ کی دوپہر کھانے کے بعد قیلولہ سے قبل بھاپ لینا چاہی تو ابلتے پانی سے بھری کیتلی جس میز پر رکھی تھی میرا پائوں لگنے سے گرگئی۔ اس کی وجہ سے جو پانی اچھلا وہ میری دونوں ٹانگوں اور پائوں پر شعلے کی طرح حملہ آور ہوا۔ تکلیف سے بلبلاتا رہا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فی الفور کسی ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا۔ایسا ہرگز نہیں کیا۔میرے خانساماں کا دعویٰ تھا کہ جسم کے جس حصے پر گرم پانی گرے اس پر اگر فوراََ ٹوتھ پیسٹ لگادی جائے تو درد نہیں ہوتا۔ ٹوتھ پیسٹ لہٰذا لگادی گئی۔ تھوڑی دیر کو سکون ملا۔ بعدازں بیگم صاحبہ تشریف لائیں توانہوں نے ’’انکل گوگل‘‘ سے رجوع کیا اور با زار سے ایک ٹیوب لے آئیں۔ اسے مرہم کی طرح زخموں پر لگادیا۔ امید بندھی کہ صبح تک سب ٹھیک ہوجائے گا۔درد کم کرنے کو گھر میں موجود پین کلر بھی لئے۔ اس کے بعد نیند کی گولی لی اور بتیاں بجھاکر سوگیا۔
ہفتہ کی صبح اٹھا تو دونوں ٹانگوں کے پیروں پر چھالے ہی چھالے تھے۔جی گھبراگیا۔ نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا صبح اٹھنے کے عادی ہیں۔ ہم ’’بزرگ‘‘ صحافیوں کی بیماری میں بہت کام آتے ہیں۔ اسے فون کیا۔ چند ہی منٹوں بعد اس نے خبردی کہ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں برن سنٹرہے۔اس کے خصوصی طورپر تربیت شدہ ڈاکٹر ہی میرے زخموں کا علاج فراہم کرسکتے ہیں۔ ٹوٹکے آزمانے سے اس حال میں پہنچا ہوں۔ اب خود پر رحم کروں اور فوراََ برن سنٹر پہنچوں جہاں کے نگراں ڈاکٹر میرے منتظر ہیں۔ حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اب ان کے زیر علاج ہوں۔پیر کی صبح جھلسے زخموں کے لئے مختص پٹیاں لگائی جائیں گی۔ فی الوقت چھالے کاٹ کر زخم صاف کئے گئے ہیں۔نئی پٹیاں باندھنے سے پہلے وقفہ درکار ہے۔
جس اذیت ناک تجربے سے گزرا ہوں اس کا ذکر یہ بتانے کو کیا ہے کہ اس تجربے کی بدولت ایک بار پھر احساس ہوا ہے کہ انسان عمر کے ایک خاص حصے میں پہنچنے کے بعد نئی دریافتوں اور ان کی اہمیت کے ادراک کے قابل نہیں رہتا۔انگریزی میں ماہرین نفسیات اس رویے کو Dependency Path کہتے ہیں یعنی ایک ہی (پرانی)ڈگر پر انحصار /قناعت کی عادت۔مثال کے طورپر میرا دماغ ابھی تک اس سوچ پر اٹکا ہوا ہے کہ بھاپ لینے کے لئے کیتلی میں پانی گرم کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بھاپ پیدا کرنے کی ایسی مشینیں بازار میں بآسانی میسر ہیں جو آپ کو کیتلی میں پانی گرم کرنے اور اسے میز پر رکھ کر بھاپ لینے کے عمل سے جڑے خطرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔
کیتلی میں پانی گرم کرنے کے بعد بھاپ لینے کی عادت نے مجھے یہ سوچنے کو بھی مجبور کیا ہے کہ یہ کالم لکھتے ہوئے ایسے کئی موضوعات میرے ذہن میں آتے ہوں گے جن کا ’’تجزیہ‘‘ میں ان پیمانوں کے ذریعے کرنے کا عادی ہوں گا جو شاید اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔ چند اہم موضوعات پر اس کالم میں جوتجزیے کئے وہ تمام ترتو نہیں مگر اکثر غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔بستر پر لیٹے ہوئے گزشتہ دو دنوں سے ان کے بارے میں غور کیا تو احساس ہوا کہ میرے چند تجزیے غلط ہونے کی اصل وجہ بدنیتی نہیں تھی۔ ان پیمانوں کا اطلاق تھا جواب متروک ہوچکے ہیں۔نئی دریافتوں یا نئے حقائق کی نمائندگی نہیں کرتے۔بھاپ لینے کے لئے فقط کیتلی میں ابالے پانی پر انحصار کی عادت۔ اس امر سے عدم آگہی کہ بھاپ لینے کے لئے اب ایسی مشینیں میسر ہیں جنہیں دیوار میں لگے بجلی کے سوئچ میں لگاکر حادثوں سے بچاسکتا ہے۔
ایک ہی (پرانی) ڈگر پر ا نحصار مگر نصرت جاوید نامی فرد تک محدود رہے تو شاید اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ 8فروری2024ء کے بعد سے تاہم مجھے مسلسل یہ فکر لاحق ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اور خاص طورپر ریاستی فیصلہ سازی کے حوالے سے ’’مقتدرہ‘‘ کہلاتی قوتیں عوام کو قابو میں رکھنے کے لئے میری طرح نئی دریافتوں یا نئے حقائق کے ادراک کے قابل نہیں رہیں۔ یہ طے کرچکی ہیں کہ بھاپ لینے کے لئے فقط کیتلی ہی میں پانی گرم کرنا ہوگا۔ 8فروری کے دن تک پہنچنے کے لئے قیدی نمبر804کے عاشقان کو قابو میں رکھنے کے لئے 1857ء سے ہمارے خطے میں متعارف کروائے ریاستی کنٹرول کے ہتھکنڈوں پر مکمل انحصار ہوا۔ فیصلہ سازوں میں سے کسی ایک نے بھی سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ رواں صدی کے آغاز سے سوشل میڈیا نامی بلا بھی آچکی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ٹویٹر وغیرہ نے بالآخر ’’عرب بہار‘‘ کو محض تھوڑی دیر کے لئے برقرار رکھا اور اس کے بعد مصر ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آگیا۔پاکستان مگر مصر نہیں ہے۔ہمارے ہاں انگریز کے دور ہی سے ہر پانچ دس برس بعد کوئی نہ کوئی عوامی تحریک رونما ہوجاتی ہے۔ریاست وحکومت اسے پوری قوت سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ وقت گزرنے کے بعد مگر ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے حصول کے لئے مذاکرات کی راہ نکالنا پڑتی ہے۔ یہ راہ نہ نکلے تو ریاست مزید غضب ناک ہوجاتی ہے۔مشرف کی لگائی ا یمرجنسی پلس کے با وجود مگر 2008ء میں انتخاب کروانا ہی پڑتے ہیں جو 2018ء اور 2024ء کے مقابلے میں کہیں زیا دہ صاف،شفاف اور آزادانہ تھے۔
 قصہ مختصر کیتلی میں پانی گرم کرنے کے بعد بھاپ لینے کی ’’فرسودہ عادت‘‘ نے مجھے جو زخم دئیے ہیں انہوں نے اس کالم میں زیر بحث موضوعات کو نئے پیمانوں سے جانچنے کو اکسایا ہے۔دعا مانگیں کہ میں اس خواہش کو عملی شکل دے سکوں۔ پیر اور منگل کے دن اپنی  مرہم پٹی فش کی وجہ سے یہ کالم لکھ نہیں پائوں گا۔ آپ سے جمعرات اور جمعہ کی صبح ملاقات ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن