مروہ خان میرانی
marwahkhan@hotmail.com
پرانے دور کے ایک گاؤں میں ایک حکیم رہتا تھا جس کے ہاتھ میں اللہ سبحانہ و تعالی نے بیحد شفا رکھی تھی۔ اس کے پاس دنیا کی ہر بیماری کا علاج تھا، دور دور سے لوگ اپنے مریضوں کو شفا کے لیے اس حکیم کے پاس لایا کرتے تھے۔ ایک گاؤں میں کسی بزرگ کی طبیعت کافی خراب تھی۔ خاندان والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے مریض کو اٹھا کر اس حکیم کے پاس گاؤں لے جائیں گے۔ مریض کو چار پائی پہ ڈال کے وہ پیدل بہت لمبا سفر طے کر کے وہاں پہنچے۔ حکیم نے مہینے کے بعد کہا کہ اس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے، بس آپ مریض کی خواہش پوری کریں اور اس کو خوش رکھیں اب اس کے پاس گنتی کے چند دن ہیں۔ جب مریض گھر واپس پہنچا تو آہستہ آہستہ وہ صحت یاب ہونے لگا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد جب حکیم تک یہ خبر پہنچی تو حکیم نے مریض کے بیٹوں سے پوچھا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ہم آپکو دکھانے کے بعد واپس جا رہے تھے کہ راستے میں مریض نے خواہش کی کہ اس کا دل گنے کا رس پینے کو کر رہا ہے ہم نے وہاں سے تازہ گنے اتارے اور اس کا رس مریض کو پلا دیا۔ جب مریض واپس گاؤں پہنچا تو آہستہ آہستہ اپنی زندگی کے معمول پہ آنے لگا اور بالکل صحت مند ہو گیا۔حکیم نے کہا کہ اس کی بیماری کا صرف اور صرف ایک ہی علاج تھا اور وہ یہ تھا کہ اس کو کوئی ایسے گنے کا رس پلایا جائے جس گنے کو سو سالہ اڑدہا نے ڈسا ہو۔ اور یہ بالکل ناممکن تھا۔ اس لیے میں نے یہ شفا کا طریقہ نہیں بتایا۔ اس بات کی تصدیق کے لیے اس زمین پہ واپس جایا گیا جہاں سے گنا لیا تھا۔ جب اس کو کھودا گیا تو نیچے سے سانپ نکلا۔ سبحان اللہ!
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" اللہ کو کوئی شخص اور کوئی کام عاجز نہیں کرسکتا وہ ہارنے والا، تھکنے والا اور ناکام ہونے والا نہیں"- (سورہ نحل، 46)
اس بات کی گہرائی کو سمجھا جائے تو ایک مومن کی ایمان کا زاویہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ عاجز کا مطلب ہے کمزور، لاچار، بے بس، خاکسار، جو کوئی کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ اللہ تعالی اس کی یقین دہانی کر رہے ہیں قدرت کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ ایک مومن کا اپنے اللہ پہ کامل یقین اس طرح کا ہونا چاہیے کہ اگر سو تلواریں بھی ہیں اور وہ ان سے گزر رہا ہو تو اس کو اس بات کا یقین ہو کہ اس کو کوئی ایک تلوار بھی چھو نہیں سکتی بغیر اللہ کے حکم سے۔ ایک بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے جو اللہ چاہے سو ہو، جو اللہ چاہے سو ہو، ہر وقت دن رات۔ ایک دن کسی شخص نے ایک پتھر اٹھا کر ان کو مارا۔ بزرگ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ تو اس شخص نے کہا کہ اب بھی کہو جو اللہ چاہے سو ہو۔ بزرگ نے کہا کہ میری تقدیر میں اس وقت پتھر کھانا زندگی میں لکھا ہی ہوا تھا میں نے پیچھے مڑ کے بس یہ دیکھا ہے کہ اپنا منہ کس نے کالا کروایا ہے۔ اللہ ھو اکبر!
ایک غور طلب بات یہ ہے کہ بری تقدیر کو مٹا دینا، ہٹا دینا، ٹال دینا اللہ کے ہی بس میں ہے۔
"اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسکو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے"۔ (الدعد : 39)
یعنی اللہ سبحانہ و تعالی صرف تقدیر بدلتا ہی نہیں بلکہ کسی بری تقدیر کو سرے سے مٹا بھی دیتا ہے۔
حضرت علی کا قول ہے جتنی دفعہ بندہ اپنے رب سے رجوع کرتا ہے۔ اتنی دفعہ اس کی تقدیر بدلتی ہے۔
اگر اللہ آپ کے لیے بھلائی کا ارادہ کر لے تو اسے کوئی ٹالنے والا نہیں اور اگر وہ کچھ نہ دینا چاہے تو کوئی دینے والا نہیں۔ اللہ اگر آپ کی زندگی میں ترقی، خوشحالی، رحمت ،برکت، کامیابی لکھ دے تو اس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ اللہ تو وہ ذات ہے کہ جب وہ نوازنے پہ آئے تو ایک کھوٹے سِکے کو باصلاحیت و باوقار بنا دیتا ہے۔
زندگی میں کامیابی کے سفر میں بے خوف ہو کر چلئے کیونکہ"جو تیرا نصیب ہے وہ تجھے مل کے رہے گا چاہے وہ دو پہاڑوں کے نیچے ہی کیوں نہ ہو اور جو تیرا نصیب نہیں ہے وہ تجھے کبھی نہیں ملے گا چاہے وہ دو ہونٹوں کے نیچے ہی کیوں نہ ہو"- (القرآن)
اس ذات سے مخلص ہو کے اپنا رشتہ اتنا مضبوط کریں کہ وہ خود آپ کے گناہوں کے بیچ ڈھال بن جائے۔
"اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان اڑ بن جاتا ہے"- (سورہ انفال: 24)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کرنے کا ارادہ پیدا ہو اور وہ طلب حق کی طرح اللہ تعالی سے رجوع کر کے اس سے مدد مانگے تو اللہ تعالی اس کی اور گناہ کے درمیان اڑ بن جاتے ہیں اور وہ گناہ کے ارتقاب سے محفوظ رہتا ہے اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ وہ ذات جو آپ کو حق و باطل میں خود فرق سمجھاتی ہے۔
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے ساتھ تقوی کی روش اختیار کرو گے _تو وہ تمہیں (حق و باطل) کی تمیز عطا کر دے گا اور تمہاری برائیوں کا کفارہ کر دے گا اور تمہیں مغفرت سے نوازے گا اور اللہ فضل و عظیم کا مالک ہے"- ( سورہ انفال: 28)
یعنی کہ ہر چیز کا اختیار، ہونا نہ ہونا اللہ ہی کی مرضی سے ہے۔ پر جو انسان کے بس میں ہے وہ صرف نیک نیتی اور مخلصی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے۔ اسی ذات کے ساتھ سے آپ کو زندگی میں نفع یے اور جس سے دوری سے آپ کو نقصان ہے۔ جو کہ اپنے تعلق میں اتنا قدردان ہے کہ'
اکثر یہ بات ہم نے سنی ہے کہ کسی کا دل نہ دکھاؤ کیونکہ دلوں میں اللہ تعالی بستے ہیں۔ جبکہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ کون سا بندہ اللہ کا ولی یا اللہ کا دوست ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
"جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی اختیار کی اس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے"۔ (بخاری)
اس لیے اللہ کے ہر بندے کو اپنے شر سے محفوظ رکھیں کہ کیا پتا وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہو اور لا علمی میں ہم اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیں۔ استغفر اللہ!
اْسی قدر کرنے والی ذات کے سامنے اپنی زندگی اس کامل عاجزی سے گزاریں کہ جس کو کوئی عاجز نہیں کر سکتا اور جس کے آگے ہر ایک شے عاجز ہیں۔