خوشامد پرستی 

بے نقاب      اورنگ زیب اعوان 

laghari768@gmail.com 

پاکستانی قوم خوشامد پرستی میں اس قدر مبتلا ہو چکی ہے. کہ اسے سچ اور جھوٹ میں فرق دیکھائی نہیں دیتا. ہر شعبہ زندگی میں خوشامد پرستی کا عنصر کارفرما نظر آتا ہے. ہر شخص اپنی جھوٹی تعریف کے قصیدے سن کا اس قدر خوش ہوتا ہے. کہ وہ غلط اور صحیح کی تمیز بھی بھول جاتا ہے. جو لوگ اس فن میں خود کفیل ہو جاتے ہیں. وہ انتہائی قلیل وقت میں ترقی کی منازل طے کر لیتے ہیں. ان کا کوئی بھی کام نہیں رکتا. پاکستانی قوم کو دیکھ کر لگتا ہے. کہ ان کے تمام مسائل کا حل خوشامد پرستی میں پوشیدہ ہے. سرکاری ملازمین، سیاست دان، کاروباری طبقہ سب ہی عوام کا استحصال کرتے ہیں. ہم لوگ پھر بھی ان کی جھوٹی تعریفوں کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے. ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد الیکشن کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے. جس میں محض خانہ پوری کے لیے عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا ہے. مگر ان کی منشا کے مطابق کبھی بھی حکومت معرض وجود میں نہیں آئی. یا یوں کہہ لے کہ ان کے ووٹ اور ان کی رائے کو کبھی بھی عزت نہیں دی گئی. ہر بار ان کے ووٹ پر شب خون مارا جاتا ہے. ان کی منشا اور رائے کے خلاف ان پر ایک من پسند حکومت مسلط کر دی جاتی ہے. ہم لوگ بھی اس قدر معصوم ہیں . کہ اس جھوٹی اور غیر منتخب حکومت کی قصیدہ گوئی میں لگ جاتے ہیں. شب و روز ہم اس جعلی حکومت کے دفاع میں لگے رہتے ہیں. یہ جانتے ہوئے کہ اس کو ہماری منشا کے برخلاف ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے. اس غیر منتخب حکومت کو بھی عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. یہ تو ان لوگوں کی خوشامد میں لگی رہتی ہے . جو اس کو لانے والے ہوتے ہیں. ظاہر ہے. ان کا حکومت میں رہنا ان لوگوں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے. مگر اس سارے کھیل میں عوام ہی بیوقوف بنی رہتی ہے. اس نے کبھی بھی اپنے حق کو لینے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی. ستم ظرفی کی بات تو یہ ہے. کہ ہم بحیثیت قوم ہمیشہ سے دو طبقات میں تقسیم رہے ہیں. ایک طبقہ اس جعلی حکومت کے خلاف برسرپیکار رہتا ہے. تو دوسرا طبقہ اس کو جائز اور منتخب حکومت ظاہر کرنے میں دن رات لگا ہوتا ہے. یہ جانتے ہوئے کہ اس حکومت کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں. پچھلے 75 سالوں سے یہی دھوکا عوام سے کیا جا رہا ہے. اور ہم بطور عوام بھی اس قدر دھوکا بازی کے عادی ہو چکے ہیں. کہ اپنا حق لینا بھی بھول چکے ہیں. پانچ سال تک ہم لوگ آپس میں الجھے رہتے ہیں. کہ وہ اچھا ہے وہ برا ہے. یہ ثابت کرنے کی کوشش میں. چند مفاد پرست اور خوشامد پرست لوگ اس سارے کھیل میں ہمیشہ فائدہ میں رہتے ہیں. سیاسی جماعتیں بھی عوام سے رابطہ کی بجائے. ان خوشامدی لوگوں کے نرغا میں گھیری رہتیں ہیں. یہ خوشامد پرست طبقہ اعلی قیادت تک ہمیشہ سب اچھا کی رپورٹ کرتا ہے. حکومت جو بھی پالیسی اختیار کرتی ہے. یہ لوگ بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں. کہ عوام آپ کے اس اقدام سے بہت خوش ہے. جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے. جس دن سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عوام کی بات سننا شروع کر دی. کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے. اس دن ملک پاکستان میں انقلاب برپا ہو جائے گا. اہل اور قابل لوگ جو اپنی من پسند سیاسی جماعت اور قیادت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں. ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے. اور جن کے پاس وسائل کی بھرمار ہوتی ہے. وہ پارٹی اور قیادت سے مخلص نہیں ہوتے. ان کو ہمیشہ اپنے وسائل کے بل بوتے پر سیاسی جماعت میں کلیدی عہدوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے. جو اپنی نااہلی کی سزا جماعت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی دیتے ہیں. کسی شخص کو اعلیٰ ترین عہدہ پر تعینات کر دیا جائے. اگر اس میں عوامی خدمت کا جذبہ نہیں. تو وہ اس عہدہ کے تقدس کو پامال کر دے گا. عہدوں کا مقصد طاقت حاصل کرنا نہیں ہوتا. بلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات میں کمی کرنا ہوتا ہے. ہماری معصوم عوام بالخصوص پڑھ لکھا طبقہ بھی خوشامد پسندی کے مرض میں مبتلا ہے. ہم الیکڑانک، پرنٹ، سوشل میڈیا دیکھ لے. ہر جگہ عوام آپس میں دست و گریبان نظر آتی ہے. کوئی کسی کو اچھا کہہ رہا ہے. تو دوسرا اس کے بارے میں غلط خیالات کا اظہار کر رہا ہے. اس خوشامد پرستی نے قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے. جس کا خمیازہ اس ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے. جس دن ہم نے بحثیت قوم بن کر اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیا. ہماری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی. کب تک ہم ان نام و نہاد سیاسی لوگوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان رہے گے. خدارا ابھی بھی وقت ہے. اپنی آنکھیں کھولیں . اور عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے سیاسی لوگوں کی قدر کرنا شروع کر دے. سیاست عوامی خدمت کا نام ہے. ناکہ شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہونے کا. حالیہ الیکشن کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے. اسی طرح سے ماضی میں ہوتا رہا ہے. ہر بار ایک سیاسی جماعت الیکشن پر تنقید کرتی ہے. تو دوسری اس کا دفاع کرتی نظر آتی ہے. سادہ لفظوں میں جو اقتدار میں آ جاتی ہے. اسے الیکشن صحیح نظر آتا ہے. ہارنے والی کو غلط. یہی صورت حال عوام کی ہے. جن کی من و پسند جماعت جیت جاتی ہے. وہ خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں. جن کی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے. وہ دھاندلی اور کرپشن کاشور مچاتے ہیں. ہم لوگ حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں. ہمیں اپنی شکست پر غور کرنا چاہیے. کہ وہ کیا وجوہات تھیں. جن کی وجہ سے ہمیں ووٹ نہیں ملا. یا ہم عوام کے اعتماد کو جیتنے میں ناکام کیوں ہو گئے ہیں.خوشامد پرستی کو ایک طرف رکھتے ہوئے. کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے. حقیقت پر غور کرنا بھی سیکھ لیں. تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہو جائے گے. ہمیں سیاسی وابستگیوں سے بالا طاق ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے. سیاسی وابستگی ہمیشہ خوشامد کرنا سیکھاتی ہے. ہر سیاسی جماعت کے کارکن اس کی اچھائیوں کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے. وہ کبھی بھی اپنی سیاسی جماعت کی خامیوں کو نہیں دیکھتے. اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے. ہر کوئی دوسرے کی پگڑی اچھالنے میں مگن ہے. ہر سیاسی جماعت میں اچھائی اور برائی پائی جاتی ہے.
ہمیں بحثیت قوم اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. جھوٹے نعرے لگانے والوں اور عوام کی حقیقی خدمت کرنے والوں میں فرق کرنا ہوگا. ذاتی پسند اور ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے. یہی مثبت سوچ وقت کا تقاضہ ہے. کہ ایک دوسرے کی سوچ کو عزت دینا سیکھے. اختلاف لازمی کرے. مگر کارگردگی کی بنیاد پر. خوشامد پرستی کے زہر کو اپنی رنگوں میں سرایت نہ کرنے دے. قومیں اپنی سوچوں سے پہچانی جانتی ہیں. ناکہ جھوٹی نمائش سے. آئیے مل کر عہد کرے. کہ ہم نے کسی بھی سیاسی شخصیت کے آلہ کار کے طور پر کام نہیں کرنا. بلکہ ملک و قوم کی بہتری کی خاطر یک جان ہوکر آگے بڑھنا ہے. 


شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص 
چراغ بانٹنا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

ای پیپر دی نیشن