بھٹو صدارتی ریفرنس: سپریم کورٹ رائے دینے کی پابند ہے: چیف جسٹس

Feb 26, 2024 | 17:45

ویب ڈیسک

اسلام آباد:  سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی لارجر بنچ کا حصہ تھے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ آپ دیگر معاونین کے برعکس کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بتا دیں۔عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر بھی معروضات پیش کی ہیں، سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا ٹرائل شفاف انداز میں نہیں چلایا گیا، سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا. سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جا سکتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا پوری ریاستی مشینری آمر ضیاء الحق کے کنٹرول میں تھی، لاہور ہائی کورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں، ہائی کورٹ جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اچھا مسلمان نا ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی؟ جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے. جس میں ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، کیا کبھی ایسا طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباؤ ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔جسٹس منصور نے کہا کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جاسکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے. ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے؟عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ مارشل لاء دور میں ججز آزاد نہیں تھے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مارشل لاء میں آئین کو ختم کیا گیا تھا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ جب جسٹس وحید الدین بیمار ہوئے تو یہ معاملہ عدالت میں رکھا گیا، اس وقت ایک ایڈہاک جج 9 ممبر بنچ میں شامل ہوئے، اس کیس میں قیصر خان ایڈہاک جج تھے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بنچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ بھٹو کیس 9 رکنی بنچ نے سنا بعد میں 7 رہ گئے تھے۔جسٹس منصور نے کہا کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بنچ نے شروع کیا پھر 6 رہ گئے تھے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں سمت ٹھیک کرنی ہے وہ کیسے بہتر کر سکتے ہیں؟ بھارت، برطانیہ اور دیگر مثالوں کو کیسے دیکھیں، قانون کا حوالہ تو ہو جس کے تناظر میں ہم اس کیس کو دیکھیں۔جسٹس منصور نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ ججوں پر پریشر تھا لیکن اس کیس کو کیسے سنا جا سکتا ہے.عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں. جس سے ثابت ہو ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ آج ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں، اس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس وقت ملک میں بدترین مارشل لاء تھا، اس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، میرے والدین کو بھی فوجی عدالت سے سزائیں دی گئیں. اس وقت سازباز کر کے چیف جسٹس پاکستان بنے، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس سن رہے ہیں. عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دباؤ تھا۔جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیئے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہم ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلے کالعدم قرار دے دیں؟ ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیئے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟عدالتی معاون نے کہا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں. ملزم کو نوٹس دیئے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے. اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے.ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔عدالتی معاون نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا.جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو پھر ڈکلیئریشن آ گیا۔اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہو گئے۔عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے ریفرنس میں سوال پوچھا بھٹو کیس کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے یا نہیں، دوسرا یہ کہ بھٹو کو سزا کا فیصلہ کسی تعصب کی بنیاد پر دیا گیا؟ عدالت پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے.سوال یہ ہے کہ کیا عدالت آرٹیکل 186/3 کے دائرہ اختیار میں یہ کر سکتی ہے؟بیرسٹر صلاح الدین نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ٹو جی ریفرنس میں رائے دی، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لاء کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کہا کہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں، 2013 میں ججوں کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ پاکستان کا فیصلہ موجود ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟، بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یقیناً کچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں، مشکل مگر یہ ہے ضرور کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں، کون سے ختم کیے جائیں. جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتا ہوں.ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے۔صلاح الدین نے کہا کہ تشویش یہ ہے اس کے بعد اس دور کے مزید کیس کھولنے کا راستہ نکلے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا اس لیے انصاف کا خون ہوا؟ جس پر عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جی! میرا یہی مؤقف ہے. جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا وہ فیصلے تبدیل کرانے سے متعلق سرگرم تھے اور ججوں سے ملے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال کیا کہ کیا یہ اعتراف ہے یا محض تاریخی حقائق درست کرنا؟جسٹس امین الدین نے کہا کہ کتاب کا جو حصہ آپ نے پڑھا اس سے ظاہر ہوتا ہے تمام جج سزائے موت پر متفق نہیں تھے.جسٹس منصور نے کہا کہ امریکی جج لنچ پر جاتے ہیں، ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے بات کرتے ہیں. امریکی جج اس کا ذکر اپنی کتابوں میں بھی کرتے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر مزید سماعت کل بروز منگل تک کیلئے ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں