گزشتہ روز پاکستان کی مسلح افواج نے شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بلاشبہ کارروائی وقت اور حالات کی اشد ضرورت تھی مگر اس سے دہشت گردوں کو یہ واضح پیغام پہنچ گیا ہے کہ اب پاک فوج دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پُرعزم ہے اور جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ملکی سالمیت اور قومی وحدت کے تحفظ کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت ابھی تک مخصوص مفادات کے باعث فوج کے ساتھ بھرپور تعاون اور معاونت کرتی دکھائی نہیں دیتی ابھی تک سیاسی مصلحتوں کا شکار ہے۔ حالانکہ وہ اپنے بارے علم نجوم کی مہارت کبھی نہیں دکھا سکے اور ہر دفعہ ستاروں سے مات کھاتے رہے۔بات سے بات نکلی تو درمیان میں لال حویلی بھی آ گئی جو راولپنڈی کی گزر گاہ پر واقع ہے لیکن اصل بات تو دہشت گردی کے خلاف اپریشن کی ہے جو آجکل ہر صورت میں کرنا پڑے گا اور اس کی شریف خاندان کو بھی اپنی سیاسی شرافت کے تحفظ کیلئے حمایت کرنا پڑے گی، ورنہ انہیں یہ کہنے پر بھی مجبور ہونا پڑ سکتا ہے کہ شرافت چھوڑ دی میں نے، خدا کرے وہ وقت نہ آئے لیکن کیا کریں کہ حالات اسی طرف جا رہے ہیں یا پھر حالات کا جبر انہیں اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک اور مسئلہ ہے، شمالی وزیرستان میں کارروائی ہوئی تو بتایا گیا کہ ہلاک ہونیوالوں کی اکثریت پنجابی طالبان سے ہے یعنی ان کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن میرے سامنے کچھ اور حقائق بھی ہیں جن کا تذکرہ ضروری ہے کہ یہ پنجاب کو بدنام کرنے کی ایک منظم سازش ہے جو ایک عرصہ سے جاری ہے۔ طالبان ایک مخصوص نکتہ نظر بلکہ مکتبہ فکر کا نام ہے اور ایک زمانہ میں اسکے مخصوص مقام ہُوا کرتے تھے۔ جنرل ضیأالحق نے افغانستان میں امریکی جہاد شروع کیا تو اس کیلئے خام مال کی فراہمی کا اسی مکتبہ فکر کے ذریعے آغاز کیا، پھر اس میں کچھ اور سیاسی جماعتیں اور انکے ادارے بھی شامل ہوتے گئے۔ اس طرح مختلف علاقوں میں فکری اور عسکری تربیت کیلئے درسگاہیں اور مدرسے بھی بنے تو بے شمار تنظیمیں بھی وجود میں آئیں جنہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں کام بھی شروع کیا۔ شمالی خیبر پی کے، جنوبی خیبر پی کے اور اس سے ملحقہ جنوبی پنجاب کے علاقے پھر مشرقی بلوچستان اور اس سے ملحقہ سندھی علاقے اور ادھر پنجاب میں بہاولپور ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے، یہی وہ جگہیں ہیں جہاں سے مختلف تنظیموں کی تشکیل بھی ہوئی۔ میرا سوال ذرا مختلف ہے، جیسا میں نے عرض کیا کہ طالبان تو ہر علاقے سے سامنے آئے ہیں یا ان کی تخلیق ہوئی ہے لیکن ’’پنجابی طالبان‘‘ کو ہی ہائی لائٹ کیوں کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ جو پنجابی طالبان بنے ان کا تعلق پسماندہ جنوبی علاقوں سے ہے وہ جو ’’سرائیکستان‘‘ کے دعویدار ہیں۔ اول تو میرے نزدیک دہشت گرد دہشت گرد ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی علاقے، کسی بھی قوم، کسی بھی تہذیب و ثقافت سے ہو وہ امن اور انسانیت کا دشمن ہے اس کی ہر صورت مذمت ہونی چاہئے بلکہ قوم اور ملک کا دشمن قرار دے کر اسکی بیخ کنی ہونی چاہئے اور وہ جو دہشت گردی کی سیاسی اور اخلاقی حمایت بھی کرتے ہیں انہیں بھی اسی صف میں کھڑا کر کے قابل نفرت قرار دینا چاہئے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی سلامتی اور تحفظ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ میں ہے اور اس کیلئے آپریشن بھی ناگزیر ہے۔