این سعادت بزور بازو نیست

ربیع الاول کا پاک مہینہ دھیرے دھیرے بیت رہا ہے۔ یہ ماہ مبارک آتا ہے تو دلوں میں ضیا بار کرنیں بھرنے والی ساعتوں کا لمس میں بے مایہ بھی محسوس کرتا ہوں۔اور سچ کہوں تو اس بار ربیع الاول کے مہینے میں عرفان کی یہ ساعتیں برادرم ڈاکٹر وسیم انجم نے میری جھولی میں ڈالی ہیں۔ اپنے نام احباب کے خطوط کا مجموعہ ’’انجم نامہ‘‘ جب انہوں نے مجھے مرحمت فرمایا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کتاب میرے لئے قبلہ گاہ بن جائے گی۔ میں نے جب اس کی ورق گردانی شروع کی تو صفحہ نمبر 35 اور 36 پر رسول پاکؐ کے نام ان کے دو خطوط میں میری روح پھولوں کا گجرا بن کر براجمان ہو گئی اور دل و نگاہ یوں روشن ہوئے کہ زندگی کا مزہ آ گیا۔ واہ ڈاکٹر وسیم انجم این سعادت بزور بازو نیست۔ قارئین ذرا دیکھئے ڈاکٹر وسیم انجم اس مرحلہ جاں فزا سے کس سرشاری و ہوشمندی سے گزرتے ہیں۔ رسولؐ کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:
 ’’محترم جناب خاتم النبین حضرت محمد ﷺ !
السلام علیکم! میں نے 1984ء میں آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضری دی تھی اور چند ایام آپؐ کے شہر میں قیام کے بعد دیدار کعبہ اور عمرے کیلئے مکہ چلا گیا تھا۔ اس دوران جو دعائیں مانگی تھیں الحمدﷲ شرف قبولیت سے سرفراز ہو چکی ہیں۔ اس سال حج مبارک کیلئے ایک دوست خالد بھوترال آپؐ کی زیارت کیلئے آ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں اس خط کے ذریعے اپنی حالت زار آپؐ تک پہنچا رہا ہوں۔ میں آجکل گوناں گوں مسائل میں بُری طرح جکڑ چکا ہوں‘ بہت سی پریشانیوں نے مجھے آ گھیرا ہے۔ خانگی مسائل تمام طرح کی کوششوں کے باوجود حل نہیں ہو رہے‘ ترقی کی منازل دور ہوتی جا رہی ہیں اور صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ ذہنی ‘ قلبی پریشانیوں نے نڈھال کر رکھا ہے‘ جو کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں اور گھر میں بے سکونی کا عالم ہے۔ ایسے میں آپؐ سے استدعا ہے کہ میری ان تمام مصائب سے نجات ہو اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں اور راستے کی تمام مشکلات رفع ہو جائیں اور میں ایک فعال‘ خوشحال‘ توانا اور ترقی یافتہ بن کر تمام مسائل سے نبرد آزما ہو سکوں۔ مجھے آپؐ سے کامل امید ہے کہ آپؐ میری مدد فرمائیں گے اور میری نجات کا باعث بنیں گے۔ آئندہ سال آپؐ کے ہاں حاضری کا ارادہ ہے۔ آخر میں بہت بہت سلام اور خلفائے راشدین جو آپؐ کے ساتھ ہیں انہیں بھی سلام پیش ہے۔ والسلام ۔ آپؐ کا غلام‘ محمد وسیم انجم 25 دسمبر 2004ئ‘‘
مجھے یقین ہے فرشتوں نے ڈاکٹر وسیم انجم کی انگلیوں اور قلم کے ضرور بوسے لئے ہوں گے‘ جن سے انہوں نے رسول پاکؐ کو یہ خط تحریر کیا۔ پرکار اسلوب نگارش اور معصومانہ تحریر رسول اکرمؐ کو بھی پسند آئی ہو گی۔ انشأاﷲ۔ رسول پاکؐ کے نام ایک دوسرے خط میں ادب و احترام کے ساتھ رقم طراز ہیں ’’میرے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں‘ پریشانیاں بھی کم ہو گئی ہیں لیکن خواہشات کا ایک سلسلہ نہ ختم ہونے والا ہے‘ اس لئے یہ نامہ اپنی بڑی بہن نوید اقبال اور بھانجی قرۃ العین کی وساطت سے ارسال خدمت ہے اور خواہشات وہی انسانی جن کا تذکرہ اوپر کر چکا ہوں۔ اﷲ کے گھر کا دیدار‘ آپؐ کی زیارت اور مقامات مقدسہ کی قدم بوسی کیساتھ آخرت میں آپؐ سے ملاقات بازیابی، عزت کے ساتھ زندگی کے ایام کی تکمیل اور اسلام اور اﷲ و آپؐ کے نام پر خاتمہ اور کمی اولاد کہ دوسروں کے بچوں کو دیکھ کر خوشی اور اپنے بچوں کی خواہشات‘ صحت و تندرستی‘ دنیا میں کامیابیوں کی دعاؤں کے ساتھ غیروں کا ہمنوا ہو جانا تاکہ دشمن جنم نہ لی اور اگر کوئی ایسے خیالات رکھتا بھی ہے تو وہ دوست بن جائے۔ خودداری سے زندگی کے ایام کی تکمیل اور جو چیزیں میرے حق میں بہتر ہیں‘ ان کے حصول کی دعا اور التجا ہے کہ اس انسان کی ہر ممکن مدد فرمائی جائے تاکہ آنے والی آسائشوں میں محو نہ ہو جائے اور مشکلات میں صبر کا دامن نہ چھوڑ دے۔ میری دعاؤں اور التجاؤںکو اپنے پیاروں کے صدقے تکمیل کیلئے اﷲ رب العزت سے آپؐ کی سفارش درکار ہے۔ میرے اس نامہ کو میری حاضری اور سلام کو قبول فرمایا جائے۔ اﷲ حافظ! آپ کا ایک اُمتی ڈاکٹر محمد وسیم انجم‘ 30 اپریل 2010ئ‘‘
رسولؐ کے نام ان دو خطوط کے حرف حرف اور لفظ لفظ میں سے یقین‘ اطمینان اور ایمان کا جو رس ٹپکتا ہے‘ وہ ہر اہل ایمان کے حلق میں شہد کی مٹھاس بن کر محسوس ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...