کابل (نیٹ نیوز+ رائٹر+ نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) افغان صدر حامد کرزئی نے امریکے ساتھ سکیورٹی معاہدے کو طالبان کے ساتھ امن معاہدے سے مشروط کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک امریکہ اور پاکستان طالبان سے مذاکرات نہیں کرتے اور امریکہ فوجی آپریشن بند نہیں کرتا میں معاہدے پر دستخط نہیں کروں گا۔ افغانستان کسی دباؤ کے تحت معاہدے پر دستخط کریگا نہ کوئی چیز تسلیم کریگا۔ افغانستان غیر ملکیوں کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ اگر امریکہ شرائط تسلیم نہیں کرتا تو وہ کسی بھی وقت ملک چھوڑ سکتا ہے۔ ہم انکے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ہماری اصل شرط یہ ہے کہ امن عمل عملاً شروع ہونا چاہئے۔ امریکہ کو افغانستان میں آپریشن کا کوئی اختیار نہیں، طالبان ہمارا اندرونی معاملہ ہیں، افغانستان غیرملکیوں کے بغیر بھی چل سکتا ہے، افغانستان میں قیام امن امریکہ اور پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ افغان صدر نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرے، جب تک افغان حکومت کو یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ معاہدے کے افغانستان پر مثبت اثرات پڑیں گے اس وقت تک سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کئے جائیں گے۔ امریکہ کو ہمارا دوست بننا چاہئے، دشمن نہیں۔ امریکہ نے کسی کو لاکھوں ڈالر کے کنٹریکٹ دئیے اور کسی کو بموں سے نوازا ہے۔ افغان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حامد کرزئی نے کہاکہ بگرام جیل طالبان تیار کرنے کی فیکٹری ہے، جیل میں عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزام میں رکھے گئے قیدیوں پر تشدد کر کے معصوم افغانوں کے نظریہ عسکریت پسندی کی طرف تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں طالبان کے ساتھ کیا کرنا ہے، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ انہوں نے پاکستان اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ افغان میں امن عمل میں موثر کردار ادا کریں کیونکہ دونوں ملک براہ راست افغان امور میں ملوث رہے ہیں۔ افغان صدر نے انتخابات کو افغانستان کے مستقبل کیلئے ناگزیر قرار دیا اور کہاکہ مشاورتی لویہ جرگہ یہ دکھانے کیلئے منعقد کیا گیا تھاکہ افغان عوام افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کیخلاف نہیں اسلئے اگر واشنگٹن افغانستان اور اسکی عوام کا اتحادی بننا چاہتا ہے تو اسے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرنی چاہئے۔ امن عمل کے آغاز کا مطلب یہ ہوگا کہ جنگ جاری رہنے سے غیر ملکی کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ غیرملکی ایک دن ہمارے ملک پر بمباری کرتے ہیں اور دوسرے دن ہمارے لوگوں کو طالبان کے نام پر مار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ غیر ملکی دولت سے افغانستان کی تعمیرنو ہو گی۔ رائٹر کے مطابق کرزئی نے اس حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات شروع کرے یا پھر انکے ملک سے چلا جائے۔ افغانستان اپنے طور پر مسئلے کا حل دریافت کریگا۔ ہم اپنا راستہ خود متعین کر لیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کو اسی صورت میں قبول کریں گے جب امریکہ افعانستان میں قیامِ امن کیلئے طالبان سے بات چیت کے آغاز میں مدد دیگا۔ افغانستان دباؤ میں کسی چیز کو نہ تو قبول کریگا نہ اس پر دستخط کریگا۔ ہماری بنیادی شرط قیامِ امن کی کوششوں کا عملی آغاز ہے اور اگر امریکہ کو دوطرفہ حفاظتی معاہدے کیلئے ہماری شرائط منظور نہیں تو وہ جب چاہے جا سکتے ہے افغانستان غیر ملکیوں کے بغیر بھی چلتا رہے گا۔ امن عمل کے آغاز کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی غیر ملکی قوت جنگ جاری رہنے سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔ کرزئی کا کہنا تھا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں طالبان ہر جگہ نظر آتے ہیں اور وہ پہلے ہی ملک کے زیادہ تر حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ حامد کرزئی نے کہا جب تک افغانستان میں امن واستحکام کو یقینی نہیں بنایا جاتا اس وقت تک افغان امریکہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ افغان امن عمل میں امریکہ اور پاکستان کا اہم کردار ہے۔ دونوں ممالک ملک میں امن اور استحکام لانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ واشنگٹن کو اپنی پالیسی واضح کرنا ہوگی۔ سکیورٹی معاہدے پر اس وقت تک دستخط نہیں ہونگے جب تک افغانستان کی حکومت کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی جاتی کہ اس معاہدے سے افغانستان پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔