اوباما کے استقبال کے وقت مجھے موجود ہونا چاہئے تھا، ”صاحب“ نے بلایا ہی نہیں: جشودا

نئی دہلی (نیٹ نیوز/ بی بی سی) جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر بارک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما کا استقبال کر رہے تھے، اس وقت مودی کی اہلیہ جشودا بین اپنی صبح کی پوجا میں مشغول تھیں۔ بی بی سی کے مطابق جشودا بین سرخ و سنہری ساڑھی پہن کر خوب طرح تیار ہوئی تھیں لیکن اوباما کے استقبال میں جانے کے لئے نہیں بلکہ شمالی گجرات کے اپنے گاو¿ں برہمواڑی سے 120 کلومیٹر دور شادی میں جانے کے لئے۔ ان کے بھتیجے نے ٹی وی آن کیا تو اوباما کے استقبال کی براہ راست نشریات جاری تھی۔ کچھ دیر انہوں نے اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی لیکن پھر اپنے شوہر کو غور سے دیکھنے لگیں۔ مشیل اور بارک اوباما کے ساتھ مودی کو دیکھ کر انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے جب اوباما کا استقبال ہو رہا تھا تب مجھے بھی دہلی میں ہونا چاہئے تھا لیکن صاحب (مودی) ایسا نہیں چاہتے، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جشودابین نے کہا اگر وہ مجھے آج بلائیں گے تو میں کل پہنچ جاو¿ں گی لیکن میں پہلے کبھی نہیں جاو¿ں گی، انہیں مجھے بلانا ہوگا۔ یہ میری عزت نفس کا معاملہ ہے جس سے میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، ہم دونوں کے درمیان مرتبے یا حیثیت کی کوئی بات نہیں، ہم دونوں انسان ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جشودابین اپنی بھابھی سے پوچھ رہی تھیں کہ ان کی ساڑھی کے ساتھ کون سے زیورات اچھے لگیں گے۔ جشودابین بولیں میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے گذشتہ سال مجھے اپنی بیوی تسلیم کر لیا۔ حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ مجھے میرا حق دے جس کی میں حقدار ہوں۔ میں جانتی ہوں انہوں نے ملک کے لئے اپنی ازدواجی زندگی کو قربان کیا، اگر میں ان کے ساتھ ہوتی تو وہ شاید اتنا کچھ نہ کر پاتے، میرے دل میں کوئی کڑواہٹ نہیں ہے۔ مودی جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تب انہوں نے تسلیم نہیں کیا کہ میں ان کی بیوی ہوں۔ میں جب کہتی تھی کہ میں مودی کی بیوی ہوں تو بی جے پی کے لوگ مجھے جھوٹا کہتے تھے۔ شادی کے بعد وہ میرے ساتھ چند ماہ رہے، وہ صبح آٹھ بجے چلے جاتے تھے شام کو دیر سے گھر آتے تھے۔ ایک بار وہ گئے تو پھر نہیں آئے، میں اپنی سسرال میں تین سال تک رہی جس کے بعد مجھے لگا کہ اب وہ میرے پاس نہیں آئیں گے، پھر میں ٹیچر بن گئی۔ گجرات حکومت نے ان کے گھر کے باہر چار کمانڈوز تعینات کر دیئے ہیں۔ وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ جشودابین نے حقِ اطلاعات کے تحت دو بار درخواست کی ہے کہ انہیں اس سکیورٹی نظام کے بارے میں معلومات دی جائیں۔ جشودابین نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میں مندر جاتی ہوں تو یہ میرے پیچھے آتے ہیں، اگر میں بس پر چڑھتی ہوں تو یہ پیچھے پیچھے کار سے آتے ہیں، ان کی موجودگی مجھے ڈرانے والی لگتی ہے، اندرا گاندھی کو تو ان کے گارڈز نے ہی مار ڈالا تھا، میں جاننا چاہتی ہوں کہ کس کی ہدایت پر ان کی تعیناتی کی گئی۔ ان کی وجہ سے گاو¿ں میں میرا مذاق بن گیا ہے، لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھو، مودی کی بارات جا رہی ہے۔ یہ کمانڈوز ہر اس آدمی کا پتہ درج کرتے ہیں جو جشودابین سے ملنے آتا ہے، جشودابین کے رشتہ داروں کے خیال میں یہ کمانڈوز حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ان پر نظر رکھنے کے لئے ہیں۔ جشودابین کو بڑی شکایت یہ ہے کہ پولیس نے ان کی درخواست کا جو جواب بھیجا اس میں انہیں ’جشودابین چمن بھایی مودی‘ لکھا گیا ہے جبکہ انہوں نے درخواست میں اپنا نام ’جشودابین نریندرکمار مودی‘ لکھا تھا۔
جشودا

ای پیپر دی نیشن