حکمران ہر بحران کو کسی سازش سے تعبیر کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں

پٹرول بحران کے بعد نیشنل گرڈ میں خرابی، پورے ملک میں بجلی کا بڑا بریک ڈاﺅن


ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب نیشنل گرڈ میں فنی خرابی کے نتیجہ میں بجلی کا بڑا بریک ڈاﺅن ہونے سے ملک بھر میں بجلی کی ترسیل رُک گئی اور لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے 90 فیصد سے بھی زائد علاقے تاریکی میں ڈوب گئے۔ وزارتِ پانی و بجلی نے فنی خرابی دور کرنے کے لئے فوری طور پر کارروائی شروع کی جس سے سات گھنٹے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں مرحلہ وار بجلی کی بحالی شروع ہوئی۔ ترجمان این ٹی ڈی سی کے مطابق اب تک پانچ ہزار 200 میگا واٹ بجلی سسٹم میں آ چکی ہے۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کے بقول بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں دہشت گردوں کی جانب سے گدو سے سبی جانے والی مرکزی ٹرانسمیشن لائن دھماکے سے اُڑائی گئی جس سے ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام اوور لوڈ ہُوا اور بڑے علاقوں کی بجلی چلی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی وزارت اب ایسے بحران کی صورت میں بجلی کی فراہمی کا متبادل نظام وضع کر رہی ہے۔ این ٹی ڈی سی کے ترجمان کرنل (ر) رانا سجاد نے بتایا کہ ہفتے کی رات 11 بجکر 56 منٹ پر نیشنل گرڈ میں فنی خرابی پیدا ہوئی جس سے گرڈ سٹیشنز پر زیادہ لوڈ پڑنے سے سسٹم ٹرپ کر گیا، سب سے پہلے اُچ پاور پلانٹ سے بجلی کی فراہمی معطل ہوئی جس کے بعد مظفر گڑھ گرڈ سٹیشن کی لائین بریک ہونے سے ملک کے متعدد گرڈ سٹیشن ٹرپ ہوتے چلے گئے اور کراچی سمیت ملک کا 90 فیصد حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ ترجمان کے بقول کراچی کے 95 فیصد سے زائد علاقوں میں بجلی بحالی کر دی گئی ہے اور ملک کے باقی حصوں میں بجلی بتدریج بحال ہو رہی ہے۔
اگرچہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بجلی کے اس ملک گیر پر بریک ڈاﺅن کا فوری نوٹس لے کر وزارتِ پانی و بجلی سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور پورے ملک میں بجلی کی بحالی فوری طور پر یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی ہے مگر کیا ابھی تک ان کے لئے اس سوچ بچار کا موقع نہیں آیا کہ آخر ان کے دورِ حکومت میں ہی ملک اور عوام کو بحران در بحران کا کیوں سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ابھی عوام اذیتیں اٹھاتے ہوئے پٹرول کی قلت کا ہفتے بھر کا بحران بھگت کر آئے ہیں کہ بجلی کی کم ترین کھپت والے جنوری کے سرد موسم میں بھی بجلی کے طویل بریک ڈاﺅن نے ان کے اوسان خطا کر دئیے اور بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
عوام ایک بحران بھگت کر نکلتے ہیں تو دوسرا سنگین بحران عفریت کی مانند منہ کھولے کھڑا ان کا منتظر نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے دُکھ، سارے غم، سارے مصائب، ہر اذیت اور ہر مسئلہ اس ملکِ خداداد اور اس کے بے بس عوام کے لئے ہی مختص ہو گیا ہے جو حکمرانوں کی بے تدبیریوں اور خراب حکمرانی کی گواہی دیتا اس دورِ حکمرانی میں مزید عوامی مسائل کے خطرے کی گھنٹی بجاتا بھی نظر آ رہا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ کوئی عوامی مسئلہ اور کوئی بحران حکمرانوں کو ان کی بُری ترین حکمرانی کی بنیاد پر خجالت کا احساس دلاتا بھی نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم ہر مسئلہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، انکوائری کا حکم دیتے ہیں، بیورو کریسی کے چند لوگوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، حد تو یہ ہے کہ متعلقہ وزراءاپنی وزارتوں کی بے ضابطگیوں کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتے اور غیر منطقی جواز پیش کر کے اپنے مستعفی ہونے کے تقاضوں کو جھنڈی دکھا دیتے ہیں۔ چنانچہ خرابیوں کا پرنالہ وہیں کا وہیں برقرار رہتا ہے جہاں سے عوام کو اذیتیں پہنچانے اور ملک کی بدنامی کا باعث بننے والی خرابیاں پھیلتی اور حکومتی گورننس کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ حکمرانوں نے کسی بھی بحران اور عوامی مسئلے کو حکومت کے خلاف کسی سازش سے تعبیر کرنے کا بھی روایتی کلچر اوڑھ رکھا ہے چنانچہ کسی بحران کی اصل وجوہات کا کھوج لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی اور عوام پر آئے روز عذاب کی شکل میں کوئی نہ کوئی بحران قیامت بن کر ٹوٹتا نظر آتا ہے۔
حکومتی گورننس کی خرابی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران ملک بھر میں بجلی کے بریک ڈاﺅن کا یہ تیسرا بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ اگر گذشتہ ماہ دسمبر اور اسی ماہ 5 جنوری کو نیشنل گرڈ میں بجلی کا سسٹم ٹرپ کر جانے کے واقعات کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لے کر آئندہ ایسے کسی بحران سے نجات کے لئے کوئی پائیدار حکمتِ عملی طے کی گئی ہوتی تو ملک اور عوام کو آئے روز اسی نوعیت کے بحرانوں کی اذیت کیوں اٹھانا پڑتی۔ پانی اور بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی کے اس مو¿قف کو بھی درست سمجھا جائے کہ دہشت گردوں کی جانب سے گدو سے سبّی جانے والی مرکزی ٹرانسمیشن لائین دھماکے سے اڑانے کے نتیجہ میں سسٹم ٹرپ ہوا ہے تو بھی اس کی ذمہ داری تو ان کی وزارت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر بالخصوص بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کے دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے باوجود وزارتِ پانی و بجلی نے اپنی حساس ترین ٹرانسمیشن لائین کی خصوصی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ کیا محض اس صورت حال کی وضاحت پر ہی اکتفا کیا جائے یا پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو اس معاملہ میں اپنی وزارت کی کوتاہی اور غفلت کو تسلیم کر کے فوری طور پر اپنے مناصب سے مستعفی ہو جانا چاہئے؟ آخر حکمران طبقات میں غلطیان تسلیم کرنے کا کلچر کب پروان چڑھے گا۔ اگر انہوں نے بے نیازی اور اپنی غلطیوں کا ڈھٹائی کے ساتھ جواز پیش کرنے کا کلچر ہی اختیار کئے رکھنا ہے تو وہ سلطانی¿ جمہور کا مُردہ اپنے ہاتھوں ہی خراب کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے پیدا کردہ ایسے حالات ہی غیر جمہوری طاقت و اختیار اور اقتدار کی سوچ رکھنے والے عناصر کے لئے سازگار ہوا کرتے ہیں اس لئے موجودہ دور حکمرانی میں سلطانی¿ جمہور کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو یہ خود حکمران طبقات کی جانب سے ہی ہو رہی ہے۔
پٹرول کی قلت کے گذشتہ ہفتے کے سنگین بحران کے دوران ہی خود پی ایس او کے ترجمان کی جانب سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ تھرمل پاور کمپنیوں کو ادائیگی نہ ہونے اور تیل کی درآمد کے نئے آرڈر نہ دئیے جانے کے باعث آئندہ ماہ پٹرول ہی نہیں بجلی کی قلت کا بھی بحران پیدا ہو سکتا ہے مگر وزیراعظم کا سخت نوٹس لینے پر پٹرول کی قلت وقتی طور پر دور کرنے کے بعد آئندہ کے لئے اس بحران کے آگے بند باندھنے کی کوئی تدبیر اب تک نہیں کی جا سکی جبکہ فرنس آئل کی عدم دسیتابی سے بھی بجلی کا خسارہ بڑھ رہا ہے جو بجلی کی مزید قلت پر منتج ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کو اُڑانے کا تو قطعی الگ معاملہ ہے جبکہ حکومت اور متعلقہ وزارت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کی بھی اب تک کوئی پالیسی اختیار نہیں کی۔ اس وقت موسم سرما کے باعث ملک میں بجلی کی کم سے کم کھپت ہے اور دستیاب 12 ہزار میگا واٹ سے بھی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکتی تھیں مگر حکومتی بے تدبیریوں نے اس دستیاب بجلی میں بھی نمایاں کمی لانا شروع کر دی۔ ملک اور قوم کے ساتھ حکمرانوں کا اس سے بڑا مذاق بھلا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ پانی کے بے بہا قدرتی ذخائر موجود ہونے کے باوجود اس وقت ڈیمز کے ذریعے ہائیڈل پاور سے صرف 2 ہزار 767 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ صرف ایک مجوزہ کالا باغ ڈیم سے 35 سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے، اگر ہائیڈل بجلی کی پیداوار اتنی کم ہے تو یہ اس امر کی عکاس ہے کہ بے پناہ سلٹ جمع ہونے سے منگلا اور تربیلا ڈیم بھی ناکارہ ہو رہے ہیں جبکہ تھرمل پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والی 2764 میگاواٹ تھرمل بجلی بھی آئی پی پیز کو ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث نیشنل گرڈ میں جانے سے رک سکتی ہے۔ اس کے بعد ملک میں بجلی کی قلت کا جو بحران پیدا ہو گا وہ عوامی اذیت میں اضافے کا باعث بن کر حکمرانوں سے سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ اگر اس وقت 7200 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں ہونے کے باوجود عوام کو شہروں میں روزانہ دس گھنٹے اور دیہات میں 18، 18 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تھرمل پاور پلانٹس سے بھی عدم ادائیگیوں کی بنیاد پر بجلی کی سپلائی بند ہونے سے ملک اور قوم کی کیا دُرگت بنے گی۔ حکمرانوں کو سمجھنے اور اصلاح احوال کے لئے اقدام اٹھانے کی کیا اس وقت ضرورت محسوس ہو گی جب یہ ملک حکومتی بے تدبیریوں سے عملاً پتھر کے زمانے کی طرف واپس لوٹ چکا ہو گا۔ اگر حکمرانوں سے حکومت نہیں سنبھالی جا رہی تو وہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر کے خود ہی رضا کارانہ طور پر اقتدار سے الگ ہو جائیں بصورت دیگر کل کو ماورائے آئین اقدام کی صورت میں انہیں عوام کی جانب سے ہمدردی کے دو الفاظ بھی سُننے کو نہیں مل سکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...