2013ءکے بعد پیپلزپارٹی کی لاحاصل سیاست شروع ہے کبھی بلاول کو سامنے لایا جاتا ہے اورکبھی انہیں دبئی اور لندن بھجوا دیا جاتا ہے۔ سابق صدر زرداری کے خودکش حملے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو فوٹوسیشن کیلئے کراچی، اسلام آباد اور لاہورکے دورے شروع کرا دیئے گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف دوزانوں ہوکر خدمت کر رہے ہیںکہ اسی میں بچت ہے۔کیونکہ کسی دوسری سیاسی پارٹی میں ان کےلئے کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی اتنی صلاحیت ہے کہ اپنی لیڈرشپ منوا سکیں۔ بدقسمتی سے زرداری پانچ سال صدر رہے لیکن لیڈر نہ بن سکے اس طرح یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے لیکن لیڈری ان کو چھو بھی نہ سکی۔ پیپلزپارٹی کوآج کل چوہدری نثار علی خولیا ہوگیا ہے ان پر الزام یہ ہے کہ انہوںنے چارسدہ پر بیان کیوں نہیں دیا حالانکہ وزارت داخلہ نے اس بات کی تردیدکی ہے۔ چوہدری نثار علی ایک سچے، بہادر اور زبردست لیڈر ہیں ان پرکبھی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا انکی یہ باتیں ہی ان کو دیگرسیاستدانوں پر ممتازکر دیتی ہیں۔کیا یہ سیاست ہے کہ بغیرکسی وجہ کے وزیر داخلہ کے استعفیٰ کامطالبہ کیا جائے الزام تراشی کرتے کرتے یہ بھی سن لیں کہ سابق صدر زرداری الزام لگانے کیلئے امریکہ پہنچ گئے ہیں اور امریکی حکام کو جنرل راحیل شریف اور رینجرزکےخلاف شکایات کا ڈھیر لگا دیا ہے۔ آصف زرداری کی یہ بھی خواہش ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو فوج اور رینجرز کیخلاف Stand لینا چاہئے شاید وہ اس طرح ایساکھیل کھیلنا چاہتے ہیں جس سے کوئی ایک کھلاڑی گر جائے جس سے ”زرداری کھیل“ کامیاب ہو جائے اور ان کیلئے ملک واپسی ممکن ہو سکے۔
پیپلزپارٹی تو الزام تراشی کے چکر میں پڑی ہوئی تھی کہ باچا خان یونیورسٹی کی دہشتگردی نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس طرح معصوم طالبعلموں پر حملے کئے جا رہے ہیں اس سے پوری قوم صدمے سے دوچار ہے۔ جنرل راحیل شریف کسی بھی تاخیرکے بغیر فوری طور پر موقع پر پہنچے اورآپریشن کی نگرانی کی۔ جنرل راحیل شریف قوم کیلئے مسیحا بن کر سامنے آئے ہیں۔ انہوںنے افغان صدر اشرف غنی، ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اور امریکی کمانڈرجنرل جان کیمبل سے فون پر بات کی اور باورکرایاکہ دہشتگردوں کو افغانستان کے ایک مقام سے کنٹرول کیا گیا اور مطالبہ کیا کہ حملے کی پشت پناہی کرنیوالوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سیاستدان تو الزام تراشی کے چکر میں پڑے رہتے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف نے تو چار سہولت کاروں کو پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کر دیا اور اعلان کیاکہ 2016ءدہشتگردی کے خاتمے کا سال ہے۔ جنرل باجوہ کایہ اعلان بھی بڑا حوصلہ افزا ہے کہ اب دہشتگردوں کے خلاف جو ایکشن ہوگا سب دیکھ لیں گے۔ اس سارے عمل میں وزیر دفاع خواجہ آصف ایک ”کریکٹرایکٹر“ کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں۔ اپوزیشن میں تھے تو پاور پلانٹس کیخلاف کسی کے اشارے اور مفاد کیلئے سپریم کورٹ چلے گئے۔ آج انہی کے مفادکیلئے پاورپلانٹس والوں کاساتھ دے رہے ہیں۔ F16 طیاروںکی خریداری پرسابق سفیر حسین حقانی پر الزام لگا دیا۔
ایک ریاست ایک شخص کے مقابلے پراتنی بے بس ہوسکتی ہے اس کریکٹرایکٹرکے ذریعے معلوم ہوا ہے۔ لگتاہے کہ پی پی پی کی الزام تراشی کے چکر میں خواجہ آصف بھی الزام تراشیوں میں پڑگئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اگرحسین حقانی نے ایسی کوئی حرکت کی ہے تو انہیں یہ نہیں کرنی چاہئے تھی ملکی مفاد سب سے مقدم ہوتاہے لیکن خواجہ آصف کو حسین حقانی کا توڑ کرنا چاہئے تھا نہ کہ ریاست کا مذاق بنوانا چاہئے تھا۔ خواجہ آصف حکومت کے پیارے وزیرہیں اسی لئے تو انہیں دفاع کے ساتھ ساتھ بجلی کی وزارت بھی دی ہوئی ہے جہاں ہر دوسرے روز شارٹ سرکٹ ہو رہا ہے۔ کئی کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے اور وزیر پانی و بجلی کے سر پر ”جوں“ تک نہیں رینگتی۔ بے بسی کی انتہا ہے لوگ ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ گھروں میں بجلی ہے نہ گیس جس کے نتیجے میں پانی بھی نہیں ملتا۔ کوئی خدا کا خوف کرنا چاہئے۔
میں الزام تراشیوں کاذکرکر رہا تھا تو الطاف حسین کا ذکر نہ کیا تو بہت زیادتی ہوگی۔ ڈاکٹر عمران فارو ق قتل کے ملزم خالد شمیم نے بیان دیا ہے کہ قائد تحریک برطانیہ کی خفیہ ایجنسی اورامریکی سی آئی اے کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ الطاف حسین کے گردگھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ان ملزموں کوایم کیو ایم کاکارکن ماننے سے انکارکردیاہے کیسی مزیدار بات ہے لیکن کارکنوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ لیڈر شپ بعد میں ساتھ نہیں دیتی اس لئے پہلے ہی احتیاط رکھنی چاہئے۔ الزام تراشیوں کا سلسلہ سیاستدانوں سے نکل کر دانشوروں تک بھی پہنچ گیاہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے تلورکے شکار پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تو دانشوروں نے اس پر بھی تنقید شروع کردی ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے بعض دانشور اپنے آپ کو ہرفن مولا سمجھتے ہیں۔ عدالتی مسئلہ ہو یا خارجہ امور وہ رائے زنی کرنا فرض خیال کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کی رو کے مطابق فیصلہ کرناہوتا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ملکی مفاد بھی مقدم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ عدالتیں آنکھیں بندکرکے فیصلے نہیں کرتیں قانون اور آئین ملک کے مفادکیلئے بنتے ہیں اسی لئے دانشور ہماری حالت پر رحم کیاکریں اورکم ازکم اعلیٰ عدالتوں کو چھوڑ دیاکریں۔ سیاستدانوں اور دانشوروںکو الزام تراشیوں میں پڑنے کی بجائے مثبت اور تعمیری کام کرنا چاہئے۔ ملک ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہاہے۔ سکیورٹی اورکرپشن کے خطرناک عذاب میں مبتلاہے جس سے نکل کرہی ہم ملک کوآگے لے جاسکتے ہیں لایعنی سیاست اور بڑھکوں سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔