دہشتگردی کی دلدل،ماٹھی سفارتکاری اورایکشن پلان؟

ڈیووس میں سرمایہ کاروں و تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ قدرتی وسائل اور جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کاروبار کیلئے بہترین ملک ہے۔قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد سے ملکی سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں دیگر ممالک کے صنعت کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو فول پروف سکیورٹی سمیت تمام سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف موثر اقدامات سے امن عامہ کی صورتحال بہتر ہوئی۔ آ پریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ دہشت گرد بھاگ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں ان کو یقین دلا رہے ہیں کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد سے ملکی سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔وزیر اعظم صاحب ابھی ڈیووس کے راستے میں تھے کہ چارسدہ میں بدترین دہشتگردی کا واقعہ پیش آیا۔اس میں افغانستان سے روانہ ہونیوالے چار دہشتگردوں نے پاکستان میں موجود آٹھ سہولت کاروں کی مدد سے باچا خان یونیوسٹی میں آرمی پبلک سکول پشاور کی طرح قیامت برپا کرنے کی کوشش کی اور21افراد کو شہید کردیا۔وزیر اعظم نے اس سانحہ پر وطن واپس آنا مناسب سمجھانہ ہی دورہ مختصر کیا۔ انہوں نے قومی اہمیت کے معاملات پر سیرو سیاحت کو ترجیح دی۔کیاوہاں موجود سرمایہ کاروں اور تاجروں کی آنکھیں بند اور عقل مفلوج ہے کہ وزیر اعظم کی دعوت پر سرمایہ کاری کےلئے دوڑے چلے آئینگے۔ کیا انکو پاکستان کے حالات نظرنہیں آتے۔چارسدہ سانحہ سے قبل دہشتگردی کے پے در پے واقعات ہوئے۔ اگر دہشتگرد واقعی بھاگ رہے ہوتے اور انکی کمر بقول وزیراعظم ٹوٹ چکی ہوتی تو وہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سکیورٹی اداروں کو اس طرح بے بس نہ کرتے۔اس میں بھی زیادہ قصور سیاسی حکومت کا ہے جو نہ تو بھارت اور افغانستان کے ساتھ کھل کر اور جرا¿ت سے بات کرتی ہے نہ ہی اپنے ہی تشکیل دیئے ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کےمطابق عمل پیرا ہے۔ جبکہ سفارتکاری تو لاوجود دکھائی دیتی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ کہتے ہیں کہ چارسدہ حملہ کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود دہشتگرد کمانڈر عمر نے کی۔منصوبہ بندی کے بعد 4دہشتگردوں کو افغانستان میں تربیت دی گئی۔تربیت کے بعد عمر کا نائب ذاکر ان دہشتگردوں کو طورخم تک لایا جہاں مرکزی سہولت کار دہشتگرد ”اے“ نے انہیں ریسیو کیا ۔واردات کی مانیٹرنگ افغانستان سے کی جاتی رہی ۔ مجموعی طور پر افغانستان سے افغان موبائل کے ذریعے 10کالیں کی گئی۔اے پی ایس پشاورکی طرح باچا خان یونیورسٹی پر حملے کےلئے افغان سرزمین استعمال ہوئی۔ دونوں حملوں کا ماسٹر مائنڈ کمانڈر عمرہے۔ اس نے پہلے کی طرح اب بھی ذمہ داری قبول کی ۔ جنرل راحیل شریف آرمی پبلک سکول پر حملے کے فوری بعد کابل گئے تھے اور اب انہوں نے افغان صدر اور امریکی کمانڈر سے فون پر بات کی ہے جس کا کوئی نتیجہ سامنے آیا اور نہ کوئی امید ہے۔16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جاتاتو چار سدہ پر افغانستان کے ذریعے حملے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ آپکے معذرت خواہانہ رویے کو بھارت اور افغانستان کبھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔فوج نے چارسدہ حملے کے پانچ سہولت کار پکڑ لئے مزید تین کی تلاش جاری ہے۔سہولت کاروں کی معاونت کے بغیر دہشتگرد کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے۔سہولت کاروں کا محاسبہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہونا تھا مگر نیشنل ایکشن پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا۔وزیر اعظم نے ڈیووس سے واپسی پر لندن میں قیام ضروری سمجھا وزیراعظم کو انکے خیرخواہ دوست احباب سمجھائیں کہ وہ بادشاہ نہیں ہیں۔ ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم ہیں۔اس ملک میں بجلی ہے،نہ گیس اور نہ امن۔عوام صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ایسے میں انکے دورے انکے اپنے لئے مسائل پیدا کرینگے۔لندن میں وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض نکات پر عمل سست روی کا شکار ہے۔ایساکیوں ہے اسکا جواب کس نے دینا ہے؟۔
نیکٹا کی فعالیت کا وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بڑا واویلا کرتے تھے مگر اس حوالے سے خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوسکی۔ داعش کی کھلی حمایت پر کمر بستہ مولوی عبدالعزیز لوگوں کو باطل نظریات سے گمراہ کررہے ہیں مگر سکیورٹی اداروں کی اس طرف سے آنکھیں بند ہیں۔ ہزاروں مدارس دینی تعلیم تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔چند ایک دہشتگردی میں ملوث ہیں جن کو بند بھی کیا گیا ہے مگر انکے ذمہ داروں سے کوئی باز پُرس نہیں ہوئی۔کراچی اپریشن سیاست اور پیپلز پارٹی کے مفادات اور ہٹ دھرمی کی نذر ہورہاہے۔اوباما کہہ رہے ہیں پاکستان کو دہشتگردوں کے نیٹ ورک ہر صورت ختم کرنا ہونگے۔فرانسیسی صدر اولاند بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کےلئے بھارت آئے تو پاکستان کوکہہ رہے ہیں کہ وہ پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائے۔پاکستان خود دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ایران سعودیہ ثالثی اور مصالحتی مشن پر بڑے فخر اور فعالیت کا اظہار کیا گیا۔اب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرنے کہہ دیا کہ پاکستان ثالثی نہیں کرارہا اسکی ضرورت بھی نہیں ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت اپنی ترجیحات درست کرے، صحیح معنوں میں سفارتکاری کو متحرک وفعال کرے اور ایکشن پلان پر اسکے روح کے مطابق عمل کرے تبھی ملک دہشتگردی کی دلدل سے نکل سکے گا ۔

ای پیپر دی نیشن