پاناما لیکس کابھنوراورحکمرانوں کے سفینے

حالات کے تیوربتارہے ہیں کہ پاناما لیکس کے بھنورمیں بڑے بڑے سفینے ڈوب جائیں گے،صرف حکمران خاندان نہیں، ان کے خلاف درخواست گذاروںکے ستارے بھی گردش میں ہیں پاناما مقدمے کی سماعت اہم اور حتمی مراحل میں داخل ہورہی ہے روزانہ کی بنیاد پر اصل عدالت جج لگاتے ہیں جبکہ دوسرا ڈرامہ سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے پر متحارب فریق سیاستدان اور وکلاءسجاتے ہیں ۔آفرین ہے کہ استاد گرامی اورکالم نگارجناب اے آرخالد کے باربار یاد دلانے پر بھی انہوں نے سپریم کورٹ کے صدر دروازے پر ہونے والی نوٹکی بند کرنے پر توجہ نہیں دی لیکن افسوس صد افسوس سینئر قانون دانوں پر جو جانتے بوجھتے عدالت کے باہر اپنی عدالتیں لگا کر آئین قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں اُڑارہے ہیں یہ کھیل تماشا سرعام ہورہا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔
جج صاحبان کے دوران سماعت دلائل پر تبصروں سے گرمئی محفل کا سامان پیدا کیا جارہا ہے اور فریقین ان سے اپنے اپنے مطلب کی من پسند تشریحات اور تعبیرات کرکے اپنے آپ کو بہلا رہے ہیں اوراپنے حامیوں کاحوصلہ بڑھا رہے ہیںاس مقدمے کے حوالے سے ہزاروں نہیں لاکھوں لطائف سوشل میڈیا کی طلسم نگری میں جلوہ نما ہیں یہ سب کچھ ہورہا تھا کہ عدالتی رپورٹنگ کو نئی جہتوںسے متعارف کرانے والے میرے ہم جماعت و ہم سبق ،ہمدم دیرینہ ،قیوم صدیقی نے جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے پرنٹ اور ٹی وی چینلز کے عدالتی رپورٹروں کواکٹھا کرکے فیس بک پر نیالائیو شو شروع کردیا ہے جو ٹی وی چینلز کی پالیسی حدود کی قید سے بالکل آزاد ہے جس پر حاضرین کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے اوراس میں سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ اسے کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے۔
پاناما لیکس کاانجام جوہوسوہولیکن ہمارے پیارے دوست آصف توصیف ایڈووکیٹ نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی درخواست کاجو حشر کیا ہے وہ خاصے کی چیز بن گئی ہے ان کے دلائل پر جج صاحبان ہکا بکا ہیں پہلی بار جج صاحبان وکیل کی معاونت کرتے دکھائی دئےے ہیں جبکہ یہ کام وکیل کا ہوتا ہے کہ جج صاحبان کی معاونت کرے۔ماضی کے سنہرے دنوں میں اے کے بروہی اسحق ظفرانصاری جیسے آئینی ماہرین جماعت اسلامی کا وکیل ہونے پر فخر کرتے تھے اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ حافظ عبدالرحمن انصاری جیسے ماہرین کی موجودگی میں کوئی انہیں زحمت دینے کے لےے آمادہ نہیں ۔
فریقین کی سنجیدگی کایہ عالم ہے کہ اس بالی عمر یا میں کئی جماعتوں سے لطف اندوز ہوجانے والے فواد چودھری نے پارلیمان کے اجلاس کی طرح عدالتی سماعت کو براہ راست دکھانے کامطالبہ بھی کردیا ان کے بقول اس طرح عدالت کے باہر جھوٹ بولنے والوں کا پردہ چاک ہوجائے گا۔
پاناما لیکس مقدمے نے حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) میں اختلافات کی ڈھکی چھپی دراڑوں کو نمایاں کردیا ہے خاص طور پر سابق سینیٹر انور بیگ اور پرویزمشرف کے خلاف ڈٹ جانے والے چوٹی کے آئینی ماہر سید ظفر علی شاہ اپنے اضطراب اور بے چینی کو نہیں چھپا پائے اور انہوں نے مختلف چینلز پر اس حوالے سے اپنے دکھ کھل کر بیان کردئےے ہیں ۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما سابق سینیٹر انور بیگ یورپی سفیروں کے عشائےے کا احوال بتاتے ہوئے جذباتی ہوگئے کہ مجھے زندگی میں اتنی شرمندگی کاکبھی سامنا نہیں کرنا پڑا جیسے معزز یورپی سفیروں کے پاناما لیکس مقدمے کے بارے میںسوالات سن کر پانی پانی ہوگیا۔انور بیگ بتارہے تھے کہ اس عشائےے میں واحد غیرسفیر مہمان میںتھا تمام سفیر اسی معاملے کے بارے میں پوچھ رہے تھے جو آج گھر گھر میں موضوع بحث ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ،کیسے باہر گیا، شاہانہ فلیٹس کب خریدے گئے۔ ”میں پارٹی کارکن اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ان سوالات کاجواب نہیںدے سکتا اورنہ ہی اپنی قیادت کادفا ع کرسکتا ہوں میں سرعام اورکھلے بندوں بتارہا ہوں کہ پاناما لیکس مقدمے کی وجہ سے قوم کے سامنے، عوام کی عدالت میں شرم سار ہوں“۔انہوں نے انکشاف کیا کہ حکمران جماعت کی قیادت کوبھی اعتماد میں نہیں لیاجا رہا ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ انور بیگ سے اس کالم نگا ر کی چند سرسری ملاقاتیں ہیں پہلی بار اشتراکی دانشور اور نوائے وقت کے کالم نگار مرحوم عبداللہ ملک کے ہاں انوربیگ صاحب سے ملاقات ہوئی جوان کے قریبی عزیزتھے ان کے خیالات اور لہجے کی کاٹ سے اس منفرد اطوار سیاستدان کے مستقبل کااندازہ ہورہا تھا۔سابق سینیٹر انور بیگ یہ بھی بتارہے تھے کہ ہمارا نظام مفلوج ہوچکا ہے اس کی ساری قوم ذمہ دار ہے جس کی وجہ سے تعلیم کی کمی ہے جوبار بار انہیں لٹیروں کو منتخب کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ مجھے مروایا جاسکتا ہے جس کے لےے میں تیار ہوں مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہےے شدید مایوس ہوں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور چوٹی کے آئینی ماہر ظفر علی شاہ پاناما لیکس مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف اوران کے خاندان کے حوالے سے شدیدمایوس ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی سماعت کی روشنی میں بطور وکیل میرا خیال یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھنور میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ میرے خیال میں حکمران خاندان پاناما لیکس مقدمے میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ جس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ذکرکرتے ہوئے سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ 14بے گناہوں کے قتل کا حساب دینا ہوگا پولیس بلاوجہ تو گولیاں نہیں چلا دیتی اس کا جلد یا بدیر حساب ہوگا جس کی ذمہ دار پنجاب حکومت اور انتظامیہ ہے۔
حرف آخریہ کہ نام نہاد روشن خیال موم بتی مافیا پاکستان کو دہشت گردی کے عذاب سے بڑی حدتک نجات دلانے والے جنرل راحیل شریف کے ”جرائم“ معاف کرنے پر تیار نہیں ہے اب انہیں معمول کے مطابق زرعی زمین کی الاٹمنٹ پر ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے جس زمین پر صرف اور صرف کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اسے کسی دوسرے کاروبار یاتجارت کے لےے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ یہ زمین پاک بھارت سرحد کے 5کلومیٹر کے اندر واقع ہے جس کی کوئی غیرمعمولی اہمیت نہیں ہے لیکن ضرب عضب سے کاری وار لگا کر دہشت گردوں اوران کے ہمنواﺅں کی کمر توڑنا بھی تو سنگین جرم ہے جس کوبھلانے اورجنرل راحیل شریف کومعاف کرنے پر ہمارے یہ ”دوست“ آمادہ نہیں ہیں۔ سوشل میڈیاپر روزانہ نت نئے سوالات اٹھاتے جارہے ہیں اورکئی نہیں جو ان کوروکے یا قانون کی راہ دکھائے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن