نواز رضا
سپریم کورٹ میں ’’پانامہ پیپرز ‘‘ پر ’’ عدالتی جنگ ‘‘نے دلچسپ صورت اختیار کر لی ہے پانامہ پیپر لیکس کیس نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے جس کے بعد’ ’قانونی ماہرین‘‘ بھی قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں یہ بات کھلم کھلا کہی جا رہی ہے سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز کیس پر اب تک ہونے والی سماعت سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کسی بہت بڑے فیصلہ کا امکان نہیں اب تک تحریک انصاف کے وکیل وزیر اعظم محمد نواز شریف کا پانامہ پیپرز لیکس سے تعلق قائم نہیں کر سکے ہیں اسی طرح تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ او جماعت اسلامی ابھی تک وزیر اعظم کے خلاف لگائے گئے الزامات کے بارے کوئی مصدقہ ثبوت پیش کر سکی ہیں اور نہ ہی وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے دفاع میں پیش کئے گئے شواہد کے بارے میں کوئی ثبوت دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ کیس میں ہونے والی پیش رفت کے مطابق اس کے خارج ہونے کا امکان بھی ہو سکتا ہے جبکہ درخواست مسترد ہونے کے بعد کمشن بھی قائم کیا جا سکتاہے۔ان امکانات کے باوجود حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ سے واضح فیصلہ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور پورے ملک کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن(تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ) کے درمیان ’’عدالتی جنگ‘‘ نے پورے ملک کے عوام میں جہاں کیس کے انجام میں دلچسپی بڑھا دی ہے وہاں ان میں اس بات پر تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ’’محاذ آرائی ‘‘ کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’پانامہ پیپرز لیکس‘‘ پر سپریم کورٹ سے رجوع کرتے وقت بھی پوزیشن جماعتوں میں اتحاد قائم نہ ہو سکا صرف تین جماعتوں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے ہی پانامہ پیپرز لیکس پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں سپریم کورٹ سے باہر تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی وزیر اعظم محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں پانامہ پیپرز لیکس کی سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس سے فریقین اپنی مرضی کے مطالب نکال رہے ہیں ۔اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ نے فریقین کو اپنی عدالتیں لگانے کی ممانعت کر رکھی ہے، ہر روز کیس کی سماعت کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے باہر ’’عدالتیں ‘‘لگائی جا رہی ہیں۔ ’’سیاسی اخلاقیات ‘‘ کو بالائے طاق رکھ کر حکومت اور تحریک انصاف کی ٹیموں میں مقابلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف پورا دن حکومت پر تنقید میں مصروف رہتی ہے تو حکومتی ٹیم اس سے تین گنا زیادہ وقت لے رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی مریم اورنگ زیب ،دانیال عزیز ، طلال چوہدری ، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ،مائزہ حمید ، محمد زبیر اور مصدق ملک اپنے مؤقف کی تائید میں عمران خان پر تابڑ توڑ حملے کر ہی رہے تھے اب وفاقی وزراء خواجہ محمدآصف علی اور خواجہ سعد رفیق بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ دونوں میدان سیاست میں ’’جارحانہ‘‘ کھیل کھیلنے والے سیاسی کھلاڑی ہیں انہوں نے سیاسی ماحول ایسا گرما دیا ہے ، تحریک انصاف کی طرف سے ’’چیخ و پکار‘‘ شروع ہو گئی ہے کہ وفاقی وزراء دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ’’انصاف ‘‘نہ ملنے کی صورت میں ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ناجانے اس بار اس اعلان سے وہ کسے متاثر کر رہے ہیں؟ جب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اپنی سیاسی حیثیت سے بڑھ کر اعلانات کرنے کے عادی ہیں اب تک انہوں نے جتنی پیشگوئیاں کی ہیں ایک بھی ’’سچ‘‘ ثابت نہیں ہوئی اب وہ ایک سانس میں 2017ء عام انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں جب کہ وہ دوسرے سانس میں ایک اور ’’خونیں دھرنا‘‘ دینے کی دھمکی دے رہے ہیںوہ پچھلے چار سال سے ہر سال کو انتخابات کا سال قرار دے رہیں کل تک وہ یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ 2016ء کے اواخر میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا 6 201 ء کا آخری سورج بھی غروب ہو گیا ہے شیخ رشید احمد اس طرح کی دھمکیاں دینے کے عادی ہیں وہ ہر تین ماہ کو ملک کی تاریخ میں اہم قرار دیتے ہیں کبھی آئندہ 72 گھنٹے کو اہم قرار دے کر سب کچھ’’ تلپٹ ‘‘ ہو جانے کی پیشگوئی کرتے ہیں شیخ رشید احمد ملکی سیاست کا ایک ایسا کردار ہیں جو اپنے’’ محسن ‘‘ عمران خان کی زبان بولتے ہیں پچھلے 9ماہ کے دوران اپوزیشن جماعتیں پانامہ پیپرز لیکس پر اکھٹی نہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ میں بھی عملاً غیر موثر ہو کر رہ گئی تھیں عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کر کے ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کی پالیسی کے تحت قومی اسمبلی کے ایوان میں کسی نہ کسی بہانے ہنگامہ برپا کرنے کا ’’ڈرامہ ‘‘ رچانے کا فیصلہ کیا قومی اسمبلی کے پچھلے سیشن میں مسلسل ہنگامہ آرائی کر کے سیشن کی کارروائی نہ چلنے دی اب پھر ان کے عزائم یہی دکھائی دیتے ہیں اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے ایک بار پھر صف بندی کی جارہی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرادی گئی ہے ۔آج قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو رہا ہے اپوزیشن تحریک استحقاق کی اجازت نہ ملنے کو جواز بنا کر ایک بار پھر پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا کرنا چاہتی ہے تحریک انصاف کی ’’چیخ و پکار ‘‘ پر وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعدرفیق نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ’’سیز فائر‘‘ کی پیشکش کی تھی لیکن تحریک انصاف نے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ حکومت کے ساتھ ’’زبان بندی ‘‘سمجھوتے کے حوالے سے اطلاعات انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔گالم گلوچ، بہتان تراشی اور بلیک میلنگ نون لیگ کے متعارف کروائی حکومت سے کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ۔ لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے سیاسی افق پر مفاہمت کا ماحول پیدا ہونے کا ابھی امکان نہیں۔
آج قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس شروع ہو رہا ہے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق’’ہائوس بزنس کمیٹی‘‘ کے اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے اجلاس کی کارروائی کو پر امن ماحول میں چلانے کی درخواست کریں گے ۔ اس دوران ’’ اپوزیشن کیمپ ‘‘میں اس حد تک پیش رفت ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے ملاقات میں ایک بار پھر پارلیمنٹ میں ملک کر چلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف ایک اور تحریک استحقاق قومی اسمبلی سیکریڑیٹ میں جمع کرائی گئی ہے اپوزیشن نے یہ جانتے ہوئے کہ وزیر اعظم کی تقریر کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے جان بوجھ کر تحریک استحقا ق جمع کرائی ہے تاکہ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے چیمبر میں ہی تحریک استحقاق کو مسترد کئے جانے پر اسے ایوان میں ہنگامہ آرائی کا جواز مل سکے۔ ۔پارلیمنٹ میں مجالس قائمہ کے اجلاس بھی منعقد ہو رہے ہیں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بلایا گیا پارلیمانی جماعتوں کا دوسرا اجلاس بھی بے نتیجہ ثابت رہا۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع بارے میں 25آئینی ترمیم منظور کرانے کے لئے حکومت کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کا باقاعدہ طور پر ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے پارلیمانی جماعتوں کا تیسرا اجلاس آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں پر کس حد تک اتفاق رائے پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت ملازمت میں توسیع پر پارلیمانی جما عتوں کے قائدین کا تیسرا اجلاس 31جنوری 2017ء کو منعقد ہو رہا ہے جس کے بعد صورت حال واضح ہو سکے گی۔