پریس کانفرنس سنی اور شرمندگی ،ندامت،بے بسی،بے حسی ،نااہلی،درندگی اور اس جیسی ملی جلی کیفیات سامنے آئیں۔یہاں مزید بات کرنے سے پہلے آج ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص ہوتا اس کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوتی اور وہ انصاف کے لئے پولیس ،وزرا یا کسی کی بھی مدد لیتا تو کیا مدد گا ر اس کی مدد اپنے دانت دکھا کر اور تالیاں بجا کر کرتا۔؟بات کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جب کسی پر کرب کی کیفیت ہوتی ہے تو تالیاں نہیں بجائی جاتیں اور نہ ہی واہ وائی دی جاتی ہے۔یہ تو تھا ایک پہلو اس کی دوسری جانب اگر غور فرمائیں کہ ہمارے نام نہاد پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب اپنی اسی پریس کانفرنس میں جہاں وہ مجرم کے پکڑے جانے کی بات کرنے آئے تھے ،لواحقین کو دلاسہ دینے آئے تھے ،جہاں وہ انصاف کی آواز اٹھانے والے کا ساتھ دینے آئے تھے وہاں اسکی زبان کو خود ہی گونگا کر دیا اور دوران گفتگو جب انکو یہ لگا کہ کہیں صحافی انکی جانب متوجہ نہ ہو جائیں تو زینب کے والد کا مائک ہی بند کردیا ۔مجھے تو یوں لگا کہ ان تمام باتوں سے شہباز صاحب کا مقصد یہ جتانا تھا کہ تم نے ہماری جگ میں جو رسوائی کروا دی اب تمہاری زبان نہ کھلے ورنہ یہ اچھا نہ ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ جس بات کو ہم فراموش نہیں کر سکتے وہ پریس کانفرنس سے پہلے زینب کے والد کو ہدایات دینا ہے کہ وہ کوئی بات بھی میڈیا کے سامنے نہ کہیں اکیلے میں ان سے میٹنگ کر لیں ۔وہ ان تمام باتوں کو رازدارانہ طریقے سے انجام تک پہنچائیں گے جو کہ ان شر پسند عناصر کا وطیرہ ہے۔یہ تمام تو وہ باتیں تھیں کہ جو منظر پر موجود ہیں لیکن کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آئیں ہیں کہ جو سامنے نہیں لائی گئیںیا لانے نہیں دی جا رہیں ۔مجرم عمران کی کچھ تصایر جو کہ سوشل میڈیا پر وائیرل ہوئی ہیں کہ موصوف کو اس میں نواز شریف کے دامادکیپٹن صفدر اور انکے نواسے جنید کے ساتھ ہیں ۔اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عمران کا تعلق ن لیگ سے ہے۔۔۔؟ ساتھ ہی ساتھ کیا آج سے پہلے تک اس پر ہاتھ اسی لئے نہیں ڈالا گیا کہ اس کی پشت پناہی کرنے میں پولیس اور سیاست دان ملوث تھے۔۔؟ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بہت سے اور سوال ہیں کہ جو گردش کر رہے ہیں کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی کیا اس شخص کو قرار واقعی سزا مل پائے گی۔؟اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر بچیوں کے قاتلوں کا کیا ہوا کہ جن کو زینب سے پہلے یا بعد میں ہو س کے پجاری درندوں نے بے آبرو کیا اور انکی جان چھین لی۔؟ اس کے ساتھ جڑی تمام باتوں سے عوام کو باخبر کیا جائے گا یا یہیں اس بات کو ختم کر کے مرجہ طریقے کو ہی بروئے کار لایا جائے گا۔(محمد طیب ۔ کراچی )