سوشل میڈیا نے جس طرح آزاد آوازوں کو دبایا اور کچھ کو سپورٹ بھی کیا تو ایسے حالات میں لکھنے کے لے یہ لائن لینا مشکل ہوگیا ہے کہ بندہ اپوزیشن کی لائن میں کھڑا ہو یا حکومتی لائن میں تاکہ وہ خود کو حفاظتی حصار میں رکھ سکے بغیر کسی تعصب کے اپنا مافی ضمیر بیان کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے ان تمام لائنوں کے کھو جانے کے بعد اب ایک ریلوے کی لائن ہی بچی ہے جس کو آسانی سے لیا جاسکتا ہے کیونکہ اب تو ریل کی لائن اتنی مصروف نہیں ہے کہ وہ آپ کو روک سکے واپڈا کی لائن کسی بھی شخص کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے کیونکہ جس طریقہ سے واپڈا کی مختلف کمپنیوں کی طرف سے بجلی کے بل بجھوائے جاتے ہیں وہ ویسے ہی انسان کو اس طرح کا جھٹکادیتے ہیں کہ آپ کو علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ آپ کس لائن میں ہیں اور کیا آپ اپنی لائن اور لینتھ برقرار بھی رکھ پائیں گے کہ نہیں۔ ویسے کسی دور میں ٹیلی فون کی لائن جس گھر میں ہوتی تھی اس گھر کے نرخ زیادہ ہوتے تھے مگر اب موبائل فون نے لائنوں کا مسئلہ ہی ختم کردیا ہے اسی لئے تو ہر شخص کی اپنی اپنی لائن ہے اور اسی لائن پر رہنے کے لئے اپنا تن من دھن وارنے کے لئے بھی تیار ہوجاتا ہے۔
پہلے لائن کا فرق سمجھ لیں ایک لائن اقتدار کے حصول کے لئے ہوتی ہے جس کے انتظار میں ان دنوں بہت سے سرکردہ لوگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک لائن وہ ہوتی ہے جب کسی چیز کاخاتمہ کرنا ہوتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس پر لائن لگا دو مطلب کہ اس سے تعلق قائم نہیں رکھنا۔ آپ اس تعلق کو ایسے سمجھ سکتے ہیں جیسے مسلم لیگ نواز کے چند حضرات اپنے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار سے لاتعلق ہوئے ہیں چوہدری نثار بھی بادشاہ طبیعت کے مالک ہیں نوازشریف کی حکومت سے الگ بھی ہو گئے ہیں اور ان کو مختلف مشورے دے کر الگ بھی نہیں ہیں اس لئے ان کی ایک اپنی ہی لائن ہے وہ سیدھی ہے یا نہیں اس حوالے سے نواز لیگ والے بہتر بتا سکتے ہیں ویسے تو جس طرف چوہدری نثار کی لائن سیدھی سمجھی جارہی ہے اس طرف تو اکثر سیاستدانوں نے لائن سیدھی کرنے کے لئے کئی کئی سال لائن سیدھی رکھنے کے رموز و اسرار سیکھے ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ منسلک لوگ ہی موجودہ حالات میں عقل مند نظر آرہے ہیں اور ان کی لائن صرف ایک ہی ہے جو کہ سیدھی اقتدار کی طرف ہے چاہے اس لائن پر چلنے کے لئے وہ بھول بھلیوں پر ہی چل رہے ہیں مگر مجال ہے کہ ان میں سے کوئی یہ بات مان لینے کے لئے تیارنظرآتاہو کہ حضورحصول اقتدار کے لئے لائن عوام کی طرف لگانی چاہیے نہ کہ ایسے لوگوں کی طرف لائن لگالی جائے جن کو خود سسٹم کی لائن میں ہونا چاہیے نہ کہ سسٹم کی لائن سے اوپر کوئی اپنی لائن بنا کر وہ سیاستدانوں کوپتلیاں بناکرنچاتے رہیں۔ بہت سے لوگ یہ بات بھی مان لینے کے لئے تیار نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی لائن پر چلتے ہوئے سیاست سے انصاف کررہی ہے ان کا خیال ہے کہ اگر غلط کے ساتھ کچھ غلط کردیا جائے تو وہ غلط نہیں ہوتا ان کی یہ منطق ایسے ہی ہے جیسے کوئی ادیب ادب کی اس طریقہ سے بے ادبی کرے کہ آپ کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ ہوکہ اس بے ادبی پر ادب سے اس ادیب سے اجازت لے لی جائے۔ ٹریفک روانی کے دوران لائن اور لین کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ اپنے ساتھ ساتھ آپ دوسروں کے لئے بھی مسائل کا باعث بنتے ہیں اور سیاست میں کسی حادثہ سے بچنے اور اقتدار کے لیے لائن درست رکھنے کے لئے الائنمنٹ کرواتے رہنے والے سیاسی ڈرائیور ہی بآسانی منزل مقصود پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بھلا ہو اپنے بہت سے سیاستدانوں کا جنہوں نے کسی کی پرواہ کیے بغیر ایک لائن لے رکھی ہے اور وہ ہے اقتدار کی لائن ویسے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ حکومت کی لائن کونسی ہے وہ حکومتی لائن پر عمل پیرا ہے یا اپوزیشن ان کی لائن ہے پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کا کردار بھی بخوبی نبھا رہی ہے اور اس میں کبھی نوازشریف، کبھی مریم نواز، ان کے شوہر نامدار کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر خارجہ خواجہ آصف، مہمان اداکاروں کو تو کسی صورت نہیں بھولا جاسکتا جن میں دو فیصل آبادی طلال چوہدری، عابد شیر علی اور دانیال عزیز منڈا نارووال کا شامل ہیں۔ ویسے دانیال کی لائن تو ہمیشہ سیدھی رہی ہے جو سانپ کی بجائے سیڑھی کی طرح سیدھی اقتدار کی طرف جاتی ہے اور جائے بھی کیوں نا ان کو یہ ہنر آگیا ہے کہ کس طرح آمریت میں رہ کر 'غیرجمہوری" لوگوں کو لتاڑنا ہے اور کس طرح جمہوریت میں رہ کر 'آمریت نما جمہوریت' کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والوں کا راستہ روکنا ہے۔
ویسے تو اب وہ بھی بول رہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے فیصلے بولتے ہیں ایسے حالات میں ہم اپنے ہاتھوں سے اداروں کو کمزورکررہے ہیں کیونکہ فیصلے لکھنے والوں کے بولنے سے مراد یہ ہے کہ مخالف آپ کو اشتعال دلانے میں کامیاب ہوگیا اور یہ بات ہمیشہ سیاست دانوں کے فائدے میں جاتی ہے کہ کسی نہ کسی ایشوپر عوام کے جذبات گرم رہیں جذبات گرم رہیں گے تو ہی عوام کے ساتھ وہ لفظی تماشہ لگانے میں کامیاب ہوسکیں گے اور جب انسان کسی کو اس کے قلعہ سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اس کی جیت ہوتی ہے کیونکہ قلعہ ایک حفاظتی حصار ہوتا ہے اور اگر حصار ہی چھوڑ دیا جائے تو پھر آپ کسی طوریہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی حفاظت یقینی ہے اس لئے ہمیں ملک میں موجود ٹریفک، واپڈا، ریلوے، سیاست سمیت تمام لائنوں کو سیدھا کرناہوگا بصورت دیگر ان لائنوں کو پہنچنے والے نقصان کا بلاواسطہ یا بالواسطہ تعلق پاکستان کے عوام کو ہوگا جس کا ہم موجودہ حالات میں کسی طور متحمل نہیں ہوسکتے جب امریکہ اور انڈیاجیسے ممالک دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کو سراہنے کی بجائے اس کو ہی سربازار لاکر اس پر الزام کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ ہمیں اپنی لائنوں کو آج نہیں تو کل سیدھا کرنا ہی پڑے گا۔ وطن عزیز میں پوراسسٹم چلانے کے لئے لائنیں موجود ہیں اگر کمی ہے تو صرف سیاسی لائن کی اور یہ لائن ہمیں کسی اور نے نہیں دینی بلکہ ہمارے اپنے سیاسی رہنمائوں نے یہ لائن کھینچنی ہے!