اب سے ایک سو دو برس پہلے یعنی 1916ء کی بات ہے۔ شدید گرمیوں کے دن تھے۔ لوگ امریکہ کی ریاست نیوجرسی کے ساحل پر واقع ایک تفریحی مقام پر اکٹھے تھے۔ لوگ سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ خطرناک شارک مچھلیوں نے اُن پر اچانک حملہ کردیا۔ شارک یکم جولائی سے بارہ جولائی تک ساحل کنارے لوگوں کا شکار کرتی رہیں۔ ان حملوں میں چار افراد مارے گئے جبکہ ایک زخمی ہوا۔ ان واقعات کی خبروں نے پورے امریکہ میں شدید خوف و ہراس پیدا کردیا۔ امریکی تاریخ میں ان بارہ دنوں کو دہشت کے دنوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ شارک کے انسانوں پر اس حملے کے حوالے سے بہت سی کہانیاں اور لٹریچر بھی تحریر کیا گیا۔ ان میں سب سے مشہور ناول جاز ہے جسے پیٹربینچلے نے 1974ء میں لکھا۔ اسی ناول پر 1975ء میں جاز کے نام سے ہالی وڈ میں ایک فلم بنائی گئی جو امریکی سینما کی تاریخ میں ایک بہترین فلم ہے۔ فلم جاز کی تاریخی خصوصیات کے باعث 2001ء میں کانگریس لائبریری نے اِسے امریکی ورثے کے طور پر محفوظ کرلیا۔ شارک کے اس حملے کا تجزیہ کرنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شارک کے اِن حملوں نے اُس وقت کے امریکی صدارتی انتخابات پربھی بہت گہرا اثر ڈالا۔ جب شارک کے حملوں کے یہ واقعات رونما ہوئے تو اُس وقت امریکہ کے صدر وُڈرو وِلسن تھے۔ وہ 1913ء میں امریکی صدر بننے سے پہلے جنوری 1911ء سے مارچ 1913ء تک نیوجرسی کے گورنر رہ چکے تھے اور اب 1916ء میں دوسری ٹرم کے لئے مضبوط صدارتی امیدوار تھے۔ انتخابات کے نتائج آئے تو وِلسن مجموعی طور پر کامیاب ہوگئے لیکن سیاسی تجزیہ کار یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ پاپولر وِلسن اپنی ہی ریاست نیوجرسی میں ہار گئے ہیں۔ مبصرین کے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ نیوجرسی کی ریاست وِلسن کا ذاتی حلقہ اور ہوم لینڈ ہے۔ وہ یہاں کے گورنر بھی رہ چکے تھے اور صدارتی انتخابات کی اپنی پہلی ٹرم میں نیوجرسی سے جیت چکے تھے۔ پھر اِس مرتبہ انہیں اپنے ذاتی حلقے میں شکست کیوں ہوئی؟ گہری تحقیق اور نفسیاتی تجزیوں کے بعد ایک چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا۔ وہ یہ کہ وِلسن کی اپنے ذاتی حلقے میں شکست کی وجہ شارک کے وہی حملے تھے۔ ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ووٹرز اچھی طرح جانتے تھے کہ شارک پر وِلسن کا اختیار نہیں تھا اور ان حملوں میں وِلسن کا کوئی قصور بھی نہیں تھا لیکن ووٹرز کے خیال میں یہ ایک لیڈر کی نااہلی تھی کہ اُس نے اپنے عوام کو اِن حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے پہلے سے ہی سدباب کیوں نہیں کیا؟ نیوجرسی کے ووٹروں کے خیال کے مطابق ایک سیاسی لیڈر میں یہ اہلیت ہونی چاہئے کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھے اور غیرمتوقع صورتحال سے نمٹنے کی پوری قابلیت رکھتا ہو۔ نیوجرسی کے ووٹروں نے وِلسن کو اس حوالے سے نااہل سمجھا اور اُسے ووٹ نہ دے کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آج بھی سیاسی تجزیہ نگار نیوجرسی کے ووٹروں کے اُس ٹرینڈ کو ووٹروں کی میچورٹی کا رول ماڈل قرار دیتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور جمہوریت کے فلاسفروں کے نزدیک جمہوریت میں سیاسی لیڈروں سے زیادہ ووٹروں کی میچورٹی اہم ہوتی ہے کیونکہ ووٹر جس قسم کے لیڈروں کو منتخب کریں گے اُس سوسائٹی میں ویسا ہی جمہوری ماحول پایا جائے گا۔ گویا اچھی، کم اچھی یا بری جمہوریت کا دارومدار سیاسی لیڈروں کی بجائے ووٹروں کی میچورٹی پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ووٹروں کے لئے میچورٹی کی یہ نوبت آنے ہی نہیں دی گئی۔ پاکستان کا قیام لوگوں کی رائے یعنی جمہوریت کے نتیجے میں ہوا لیکن قائداعظم کے بعد جمہوریت کو ایک طوق بناکر عوام کے گلے میں ڈالا جاتا رہا۔ مطلب یہ کہ جمہوریت کا ناٹک ہمیشہ رچایا گیا لیکن مخصوص نتائج کو عوام کی رائے پر ترجیح دی جاتی رہی۔ اس کے لئے کبھی ڈرائنگ روم پالیٹکس کا سہارا لیا گیا، کبھی مارشل لاء لگائے گئے، کبھی ہارس ٹریڈنگ کی گئی اور کبھی عدالتی فیصلوں کے ذریعے اپنی خواہشیں پوری کی گئیں۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے 2018ء تک پہنچ گیا ہے۔ اس برس کے متوقع عام انتخابات پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں تو 70 برس سے موجود وہی ڈرائونی حقیقت اب بھی ویسے ہی نظر آئے گی۔
ملک کی موجودہ قومی سیاسی جماعتوں میں ن لیگ، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، جے یو ایف اور اے این پی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ دیکھا جائے تو آئندہ انتخابات میں بھی مذکورہ جماعتوں کے ووٹروں پر اعتماد کرنے کی بجائے ’’صوفی پر اعتماد‘‘ کے پلان کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے عدم توازن کو توازن دینے کے لئے تحریک لبیک سامنے آئی۔ قدیم اور مضبوط مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی 70 برسوں میں اتنے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی جتنا تحریک لبیک نے 70 مہینوں سے کم عرصے میں ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا نام و نشان بھی نہیں رہا جبکہ نوزائیدہ تحریک لبیک تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اب مستقبل کے مقابلے کی دو جماعتیں یعنی ن لیگ اور پی ٹی آئی کی بات کریں تو معاملہ کھل جاتا ہے۔ ن لیگ اپنے کندھوں پر سی پیک، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، موٹرویز کی تکمیل اور دیگر مختلف پراجیکٹس سجاکر انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے۔ شاید انہی پراجیکٹس کے باعث ووٹرز کی فیصلہ کن تعداد ن لیگ کی طرف متوجہ بھی ہے۔ ووٹروں کی اِس توجہ کو ن لیگ کے خلاف عدالتی فیصلوں اور مقدمات کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ن لیگ کے توڑ کے لئے سیاسی جماعت پی ٹی آئی ظاہر ہوئی لیکن وہ بھی اب ناکام سیاسی لیڈروں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہی ن لیگ کو فائر کرنا چاہتی ہے۔ چند دن پہلے عمران خان نے پی ٹی آئی کے آئندہ انتخاب میں لائحہ عمل کے حوالے سے سی ای سی کے اعلانئے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ن لیگ کی کرپشن کے لاتعداد مقدمات عدالت میں لے جائے گی۔ ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کے پاس اپنی کوئی سیاسی متاثر کن کارکردگی نہیں ہے لہٰذا وہ ن لیگ کو عدالتوں میں رسوا کرکے ہی انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے لوگ دنیا کے ذہین اور قابل ترین لوگ ہیں لیکن انتخابات کے فیصلوں میں لوگوں کو ذہین اور قابل نہیں سمجھا جاتا۔ اگر پاکستان کے لوگ قابل اور ذہین ہیں توپھر یہ بھی یقین ہونا چاہئے کہ پاکستان کے لوگ اپنے ووٹوں کی رائے سے ذہین اور قابل فیصلہ ہی کریں گے۔ کیا عمران خان ووٹروں پر اعتماد کی بجائے صوفی پر اعتماد اور عدالتی فیصلوں کے سہارے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں؟