بھارت کایوم جمہوریہ اورظلم کی چکی میں پسی اقلیتیں

Jan 26, 2018

ارشاد احمد ارشد

بھارت میں زمینی، بحری یا فضائی راستے سے داخل ہوں توبڑے بڑے پینا فلیکس آویزاں نظرآتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے ’’دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملک میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ بظاہربہت خوش کن ہے پڑھنے والوں کوممکن ہے متاثربھی کرتاہو لیکن یہ جملہ اس ہاتھی کی طرح ہے جس کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے کچھ اور ہوتے ہیں۔ بھارتی حکمران دعویٰ توکرتے ہیں کہ ان کاملک دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن یہ ملک رقبے اورآبادی کے اعتبارسے جتنابڑاہے اس کے حکمران سوچ، فکر اور ظرف کے اعتبار سے اتنے ہی چھوٹے ہیں۔

26جنوری کو بھارت میں ہرسال یوم جمہوریہ منایا جاتاہے۔ اس لئے کہ 26جنوری1950ء کوبھارت میں آئین نافذ ہوا اسی مناسبت سے ہرسال بھارت میں بڑے پیمانے پر یوم جمہوریہ کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے جمہوریت، سیکولرازم اورآئین کے نفاذکے دعوے توبہت ہیں لیکن عملی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوری اورسیکولرملک کی پہلی خو بی یہ ہوتی ہے کہ وہاںتمام اقلیتوں اوراقوام کوتحفظ حاصل اوربنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں جبکہ بھارت میںمذہب اورنسلی امتیازکی بناپر اقلیتوں اوردیگراقوام کے ساتھ ایسا بدترین سلوک روارکھا جاتاہے کہ جس کی مثال فی زمانہ دنیاکے کسی بھی جمہوری ملک میں نہیں ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے بانی گاندھی اورجواہرلال نہروبہت بڑے شعبدے بازاورقول وفعل میں تضادات کاشاہکارتھے۔گاندھی نچلی ذات کے ہندئووں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بھنگی کالونی میں رہتے،دھوتی باندھتے،بکری ساتھ رکھتے، ریل کے عام ڈبے میں سفرکرتے لیکن اب بہت سے انگریزمصنفین نے یہ رازآشکارکردیاہے کہ مہاتماگاندھی اعلی پائے کے ڈرامے باز تھے ۔ گاندھی کے اس طرح کے ڈراموں کابھرم رکھنے کے لئے کانگریس کی ہائی کمان کوبھاری اخراجات کرنے پڑتے تھے۔یہی حال جواہرلال نہرو کا تھا۔ جواہرلال نہروبظاہرصبح وشام سیکولرازم کی مالاجپتے تھے لیکن اندرسے وہ کٹر،متعصب متشدداورذات پات کی تفریق پریقین رکھنے والے ہندوتھے۔وہ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستررات کوسونے سے پہلے بلاناغہ پڑھتے اوراس سے رہنمائی لیتے تھے۔جب کسی ملک کے بانی ایسے شعبدے بازہوں گے تو اس ملک میں جمہوریت اورسیکولرازم کے نام پریہی کچھ ہوگاجوآج بھارت میں اقلتیوں کے ساتھ ہورہاہے۔یہ درست ہے کہ نہرواورگاندھی کے دیش میں یوم جمہوریہ کادن بڑے تزک واحتشام اور اہتمام سے منایاجاتاہے ۔یوم جمہوریہ کی مناسبت سے ہرسال بھارتی آئین تیارکرنے والے ڈاکٹربھیم رائوامبیدکرکی یاد بھی تازہ کی جاتی ہے۔ کانگر یس ،بی جے پی اوردیگرجماعتیں ڈاکٹر امبیدکرکی یادمیں بڑے بڑے پروگرام کرتی ہیں جن پربھاری اخراجات کئے جاتے اور مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ڈاکٹربھیم رائوامبیدکر کاتعلق ہندئووں کی ایک ذات’’دلت‘‘ سے تھا۔ یہ بات معلوم ہے کہ ہندو معاشرے میں’’دلت‘‘کامقام ویش اور شودر سے بھی نیچے ہے۔ڈاکٹرامبیدکرایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ اپنے 14بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد فوج میں صوبیدار تھے۔آمدنی کم تھی اوراخراجات زیادہ۔ مگر خداداد ذہانت سے وہ لیاقت وقابلیت کی وادیاں عبور کرتے چلے گئے۔ ان کے عزم وحوصلہ کے سامنے مشکل راہیں کھلتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ وہ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے اور وہاں کے اعلی تعلیمی اداروں سے قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔ دلت اوراچھوت ہونے کے باوجود اپنی علمیت اور عزیمت کی بدولت وہ تحریک آزادی اورآزاد ہندستان کے مستقبل کے معماروں شامل ہوگئے۔ڈاکٹرامبیدکرنے بھارتی معاشرے میں جومقام حاصل کیایہ گاندھی یانہروکی بدولت نہیں بلکہ اپنی ذاتی لیاقت وقابلیت کے بل بوتے حاصل کیا تھایہاں تک کہ سماجی انصاف کے لئے ڈاکٹرامبید کرکی جدوجہد کے سامنے گاندھی کو بھی سپرانداز ہونا پڑا۔
2016ء میںبھارت میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر کی ایک سو پچیسویں سالگرہ بڑے جو ش وخروش سے منائی گئی۔تمام سیاسی پارٹیاں ،جماعتیں ،تنظیمیں ڈاکٹر امبیدکر کی جے جے کرتی نظرآئیں۔مرکزمیں بی جے پی کی حکومت نے ڈاکٹرامبیدکرکی سالگرہ کی تقریبات پر ایک ہزارپچیس کروڑ جبکہ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت نے ایک سو پچیس کروڑ روپیہ مختلف تقریبات کے لیے خرچ کرنے کااعلان کیا۔ ڈاکٹر امبیدکر کے تیار کردہ آئین کو سجا سنوار کر ہاتھی پر رکھا گیا اور جلوس نکالا گیالیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ جس شخص نے بھارت کاآئین تیارکیااس کی قوم کے ساتھ جمہوری ملک بھارت میں کیاسلوک کیا جاتاہے۔ اگرچہ بھارتی آئین مرتب کرنے کااعزازحاصل ڈاکٹرامیبدکرکوحاصل ہواتاہم اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی ڈاکٹرامبیدکر جب زندہ تھے تو قدم قدم پران کی توہین و تذلیل کی جاتی رہی۔
ڈاکٹرامبیدکربرہمن کے طریقہ واردات اورمتعصبا نہ ذہنیت کوخوب سمجھتے تھے اس لئے وہ اکثر کہاکرتے تھے ’’مجھے سر پر بیٹھاکر گھومنے سے بہتر ہے کہ میرے خیالات و نظریات کو اپنے دل و دماغ میں بٹھاؤ‘‘۔آج بھارت میں ڈاکٹرامبیدکاذکرتوہے لیکن ان کی سوچ،فکراوردلت ذات سے نفرت جوں کی توں موجود ہے۔’ ڈاکٹر امبیدکرمسلمانوں کے ممنون احسان تھے وہ کہا کرتے تھے کہ’’اگر مسلمانوں نے میراقدم بہ قدم ساتھ نہ دیا ہوتا تو میں اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ڈاکٹر امبیدکرنے بمبئی سے الیکشن لڑا تو برہمن تعصب نے انہیں جیتنے نہ دیا۔اس کے بعد 1946ء میں مالدہ (بنگال) سے مسلم لیگ کی حمایت سے مسلمانوں نے ڈاکٹر امبیدکر کو بھاری اکثریت سے الیکشن میں کامیاب کیا۔
بھارتی سرکاردنیاکودھوکہ دینے کے لئے ڈاکٹر امبیدکایوم پیدائش دھوم دھام سے مناتی ہے اوردوسری طرف ڈاکٹرامبیدکی قوم سے نفرت کی انتہایہ ہے کہ دلت کو ہندو معاشرے میں انتہائی نیچ جانا جاتا ہے۔اِن سے ہاتھ ملانا تو کجاجہاں سے دلت گزر جائے انتہا پسند ہندووں کے نزدیک وہ جگہ بھی ناپاک ٹھہرتی ہے۔ لیکن یہی دلت برادری اب تاریخ کے ایک اہم موڑ پر آکھڑی ہوئی ہے۔اڑھائی ہزار سال سے ظلم و ستم سہنے والی دلت برادری نے اچانک تاریخ کو بدل دینے کاعزم کرلیا ہے۔ دوسال قبل چار دلت لڑکے ایک مردہ بھینس کی کھال اْتار رہے تھے کہ پکڑے گئے اور انہیں اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ ان میں سے دو ہلاک ہوگئے، جس سے یہ تحریک پھوٹی اور یہ تحریک پھر اس قدر آگے بڑھی کہ مودی تخت ڈولنے لگا،جس کے بعد کشمیریوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر بھی صورت حال سنگین ہوگئی حکومت نے ہر طرح کے تشدد سے تحریک کو روکنے کی کوشش کی،مگر یہ تحریک وزیراعظم کی ریاست سے نکل کر دوسری ریاستوں تک پھیل گئی دو درجن سے زائد دلت اس تحریک میں ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ دلتوں نے ہندوں کے باڑوں سے مقدس گائیوں کو نکالا اور سرکاری دفاتر کے سامنے لے جاکر ان کے ٹکڑے بڑے افسران اور سیاست دانوں کے گھروں کے دروازوں پر پھینک دئیے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی مقدس گائیوں کو، خواہ وہ زندہ ہوں یا مری ہوں، انہیں کاٹ کر درجنوں کی تعداد میں پھینکنے کی ہمت اس قبل کسی میں نہ تھی۔ یہ تحریک بظاہر چھوٹی سطح سے اٹھی، لیکن دنوں میں اس نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ بھارت میں دلتوں کی آبادی 16 فیصد ہے اور یہی بھارت کے اصل باشندے ہیں۔ بھارتی معاشرے میں جتنا ظلم وستم ہے اور جس طرح سے انسانوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت میں چھوت چھات کی وجہ ہی مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا باعث بنی،جو لوگ نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ بھارت میں انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔

مزیدخبریں