اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ میں قصور کی زینب سے مبینہ زیادتی و قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئی جی پنجاب پولیس کو زینب کے قاتل عمران کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری آئی جی کی ہے، عدالت نے نجی ٹی وی چینل کے اینکر کی جانب سے کئے گئے انکشافات پر آئی جی پنجاب کو تحقیقات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت سوموار 29 جنوری تک ملتوی کر دی۔ قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی معصوم زینب کے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت عدالت نے ملٹی میڈیا پر نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کی فوٹیج چلوائی۔ عدالت کی جانب سے پروگرام کے اندر دیئے گئے مزید حقائق پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کی گئی جبکہ آئی جی پنجاب اور جی آئی ٹی کو نجی ٹی وی کے اینکر کے شواہد سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو زینب کے قاتل عمران کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اب تک عمران پولیس کی کسٹڈی میں ہے آئی جی پنجاب ملزم کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوایا گیا تو آئی جی پنجاب ملزم کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہوں گے۔ اینکر نجی ٹی وی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کوئی پاگل یا بیوقوف شخص نہیں بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے۔ ملزم کے 37 فارن کرنسی اکائونٹس ہیں۔ ملزم کو ملک کی ایک اعلی شخصیت اور وزیر کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ پوری دنیا میں اس واقعے پر بات ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس آرمی چیف وزیراعظم اور دیگر اعلی حکام پانے طور پر اس کی تحقیقات کروائیں۔ پولیس کی تحویل سے نکلا کر ملزم کو کسی حساس ادارے کی تحویل میں دیا جائے، پولیس کی کسٹڈی میں ملزم کے مارے جانے کے امکانات ہیں۔ جس پر عدالت نے نجی ٹی وی کے صحافی (شاہد مسعود) سے نئے شواہد کی تفصیلات مانگ لیں۔ اینکر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ملزم کے 37 بینک اکائونٹس کی تفصیلات عدالت میں جمع کرا دیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے جس اعلی شخصیات کے نام کا ذکر کیا ہے ان کے نام تحریری طور پر عدالت کو دیں ان ناموں کو تحقیقات مکمل ہونے تک صیغہ راز میں رکا جائے گا۔ چیف جسٹس نے اینکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو پھر اچھا نہیں ہو گا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عائشہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد 6 رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔ عدالت نے کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور نجی ٹی وی اینکر کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ صباح نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بے شک وزیراعلی تحقیقات کریں ہم اس معاملے کو اپنے طریقے سے دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے زینب قتل میں گرفتار ملزم عمران کو ملزم کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کو کچھ بھی ہوا تو ذمہ دار آئی جی پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات ہوں گے، کیونکہ یہ کیس ہمارے لئے انتہائی اہم ہے اور ہم حقیقت تک پہنچنا اورسچائی سامنے لاناچاہتے ہیں۔ دوسری جانب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے زینب کے قتل کے مقدمہ پر روزانہ کی بنیاد پر سات دنوں میں کارروائی مکمل کرکے فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔ مقدمے پر روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کیلئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو تحریری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ کے احکامات پر ایڈیشنل رجسٹرار نے نوٹیفیکیشن جاری کیا اور تحریری طور انسداد دہشت گردی کی خصوصی کے جج شیخ سجاد احمد کو آگاہ کیا گیا ہے۔نوٹیفیکیشن کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج کو پابند کیا گیا کہ انسداد دہشت ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ کا چالان پیش ہونے کے بعد مقدمہ پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے اور سات دنوں میں مقدمہ کا فیصلہ سنایا جائے۔وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے استدعا کی تھی کہ زنیب قتل کیس کی روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کی جائے جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بہاولپور میں ایک تقریب میں زینب قتل کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لاہور(نامہ نگار) ترجمان پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے ملزم عمران کا خصوصی عدالت سے 14روزہ ریمانڈ ملنے کے بعدسے جے آئی ٹی ممبران نے باقاعدہ تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ تفتیش کے عمل کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے تمام جدید سائنسی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جا رہا ہے جبکہ قصور میں دیگر معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والے وقوعہ جات کی معلومات حاصل کرتے ہوئے تمام کیسزکے مدعیان کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے تاکہ ملزم کے طریقہ واردات اور تمام شواہد کو یکجا کرکے دیگر حقائق بھی بے نقاب کئے جا سکیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ جے آئی ٹی افسران نے گزشتہ روز دو متاثرہ بچیوں کے لواحقین سے ملاقات کرکے معلومات حاصل کیں جبکہ زینب کے والد حاجی امین خرابی صحت کی وجہ سے جے آئی ٹی ممبران سے نہیں مل سکے جن کے ساتھ ملاقات بعد میں شیڈول کر لی گئی ہے۔ جے آئی ٹی نے نجی ٹی وی کے پروگرام کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کوبھی اپنے پروگرام میں بیان کردہ معلومات کے حوالے سے تمام شواہد ساتھ لے کر جے آئی ٹی ممبران سے ملاقات کیلئے بلوایا جا رہا ہے۔ مزید برآںجے آئی ٹی ممبران میں اضافہ کرتے ہوئے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ڈی جی ڈاکٹر اشرف طاہر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر ممبر کو جے آئی ٹی میں شامل کر لیا گیا ہے جبکہ جے آئی ٹی نے گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس اورتمام ٹرانزیکشنز کی تفصیلات مہیا کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔