سانحہ ساہیوال کا فائدہ اپوزیشن کیوں نہ اٹھا سکی

یہ ایک دلخراش اور ہولناک واردات تھی جس کی فوری طور پر کسی کے پاس کوئی مصدقہ تفصیل نہیں تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس پر افسوس کااظہار کیا اور پنجاب حکومت کو ہدائت دی کہ وہ فوری طور پر تحقیقات کرائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
اس سانحے پر میڈیا کی یلغار دیکھنے کے لائق تھی۔ اس کا فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی، فائدہ یہ کہ حقائق کو چھپانا ممکن نہ رہااور نقصان یہ ہوا کہ وزرا کے کچے پکے بیانات نشر کئے جانے لگے۔
ان بیانات کی حقیقت یہ ہے کہ افسر شاہی نے حکومت کو خوب گمراہ کیا اور من گھڑت کہانیاں وزرا کے منہ میں ڈالیں جس سے حکومت کی ساکھ خراب ہوئی اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، بزدار صاحب شریف آدمی تھے ، ان کو گمراہ کرنے کی حد کر دی گئی۔ یہ گمراہ کرنے والے کون تھے، پولیس والے، اسپیشل برانچ والے، انسداد دہشت گردی والے اور سول انتظامیہ والے مگر حکومت نے تحقیقات کے لئے بہتر گھنٹے کا وقت مقرر کیاا ور اس وقت کے اندر مجرموں کی نشاندہی بھی کر دی گئی اور ان کے خلاف سزائوں کااعلان بھی کر دیا گیا، اب جو کچھ کرنا ہے عدالتوںنے کرنا ہے ۔ ظاہر ہے مقدمے چلیں گے اور پھر ہی حتمی فیصلہ سامنے آ سکے گا۔ مگر حکومت اپنا فریضہ نبھا چکی تھی۔
اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا مگر اپوزیشن ا س کا کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکی، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ اپوزیشن کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ سانحہ ماڈل ٹائون پر خادم اعلیٰ شہباز شریف کوئی انصاف کیوں نہ کر سکے۔ متاثریں ان کے استعفے کا مطالبہ کرر ہے تھے ،حیرت کی بات ہے کہ ماڈل ٹائون میں دن کی روشنی میں، ٹی وی کیمروں کے سامنے لاہور پولیس نے پر امن نہتے افراد پر سیدھی گولیاں چلائیں ۔ شہید ہونے والوں میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھی۔ پولیس کی فائرنگ سے کئی افراد کو مستقل طور پرمعذور بنا دیا گیا مگر برسوں گزر گئے۔ شہباز شریف کی حکومت نے اس سانحے پر کوئی ایکشن نہ لیا،جس شخص کی اپنی کارکردگی یہ ہو، جب وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پریہ مطالبہ کررہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ا ور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کومستعفی ہوجاناچاہئے تویہ مطالبہ سن کر تاریخ کی ہنسی چھوٹ گئی ۔شہباز شریف اپنا ہی تمسخر اڑا رہے تھے۔ یہ تو رہی مسلم لیگ ن کی پوزیشن ۔ دوسری طرف سندھ میں ایک پولیس افسر رائو انوار نے درجنوں بے گناہ افراد کو شہید کیا مگر اس کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کی اسوقت کی اورا ٓج کی حکومت بھی کوئی کارروائی نہ کر سکی۔اپوزیشن کی یہی دو بڑی پارٹیاں ہیں جو سانحہ ساہیوال پر پوائنٹ اسکور کر سکتی تھیں اورپنجاب ا ور وفاق کی حکومت کو بیک فٹ پر لے جانے کی پوزیشن میں تھیں مگر ان کی اپنی کار کردگی ان کے آڑے آ گئی اور انہیں پر مارنے کی مجال نہ ہوئی۔لاہور اور ساہیوال میں جوا حتجاج ہوا، وہ مبینہ طور پر سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے ورثا یا محلے داروںنے کیا۔ اس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دکھاوے کا کردار بھی ادا نہ کر سکیں۔
پی ٹی آئی کو اپوزیشن کے مقابلے میں پہلی بار سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ سانحہ ساہیوال کے حقائق کیا ہیں۔اس ضمن میں پنجاب ا ور وفاق کے وزرا نے جو بیانات دیئے، وہ در اصل افسر شاہی کی فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی تھے اور اگر افسر شاہی نے تہیہ کر رکھا ہو کہ وہ حکومت کو بیوقوف بنا کر رہے گی اور اس کی جگ ہنسائی کا موجب ثابت ہو گی تو وزرا کیا کر سکتے تھے۔سوائے اسکے کہ افسر شاہی تھوڑے تھوڑے وقفے سے جو پینترے بدل رہی تھی، وہی کچھ وزرا کے منہ سے سننے کو مل رہا تھا۔
پہلا بیان یہ آیا کہ بچوں کو مغویوں سے رہا کروانے کے لئے کارروائی کی گئی ہے۔
دوسرا بیان یہ تھا کہ دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
تیسرا بیان یہ تھا کہ گاڑی کے ڈرائیور نے فائرنگ میں پہل کی جس پر تعاقب کرنے والی پولیس نے بھی فائر کھول دیا جس کی وجہ سے گاڑی کے بعض مسافر بھی نشانہ بن گئے۔
ایک بیان یہ تھا کہ گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے نیچے اتارا گیا۔
ایک بیان یہ تھا کہ گاڑی کے ٹائروں پر گولیاںمار کر اسے رکنے پر مجبور کیا گیا۔
ایک بیان یہ تھا کہ پولیس نے بچوں کو باہر نکا لاا ور باقی مسافروں کو بھون ڈالا۔
اگر یہ بیان درست ہے کہ بچوں کو باہر نکال کر فائرنگ شروع کی گئی تو اندر بیٹھی بچی کیسے ہلاک ہو ئی اور باہر کھڑی بچی کیسے زخمی ہوئی۔ ایک بچے نے بیان دیا کہ اس کے والد نے قاتلوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ رقم لے لیں مگر ان کی جان نہ لیں۔
ایک بیان یہ آیا کہ ڈارئیور کا تعلق داعش نامی دہشت گرد تنظیم سے تھاا ور چونگی امر سدھو کے محلہ اسماعیل نگر میں اس ڈرائیور کی ایک عرصے سے نگرانی کی جا رہی تھی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔اس ذمے دارانہ شہادت کے بعد ڈرائیور کا تعلق داعش سے کس نے جوڑا ، کیسے جوڑا، کیا اسماعیل نگر کے چھوٹے سے محلے میں داعش کوئی مرکز قائم کر سکتی ہے۔ کیا داعش کا طعنہ شوقیہ تو نہیں دے دیا گیا جیسے امریکہ اپنے مخالفین کو القاعدہ ، داعش، آئی ایس آئی ایس،طالبان ،بوکو حرام اور حقانی گروپ کا طعنہ دے دیتا ہے۔
ایک دعویٰ یہ کیا گیا کہ گاڑی میں سے خود کش جیکٹ ا وربھاری ا سلحہ بر آمد کیا گیا۔
ایک چھوٹی سی گاڑی میں مرنے والوں کے لواحقین کے مطابق دلہا، دلہن کے کپڑوں کے صندوق اور زیور بھی موجود تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ چھوٹی گاڑی تھی یا کوئی سی ون تھرٹی مال بردار طیارہ ،گاڑی سے برآمد ہونیوالی خود کش جیکٹ اور اسلحہ کہاں گیا۔کیا یہ جے آئی ٹی کی تحویل میں دیا گیا یا نہیں۔
ایک بیان یہ تھا کہ گاڑی میںموجود تمام لوگ دہشت گرد تھے۔
اگلا بیان یہ تھا کہ مارے جانے والوں کے لواحقین کو دو کروڑ کی مالی امداد دی جائے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ جب مرنے والے دہشت گردتھے، توحکومت ان کے لئے مالی امداد کاا علان کیسے کر سکتی ہے۔ کہا گیا کہ پہلے یہ طے کیا جائے گا کہ مرنے والے مسافر دہشت گرد تھے یا نہیں تو پھر ہی ان کو یہ مالی امداد دی جائے گی۔
ایک بیان یہ آیا کہ پورا ایکشن انٹیلی جنس اطلاع کی بنیاد پر کیا گیا۔ ایک سابق پولیس افسرشوکت جاوید نے دعوی کیا کہ ان کی ذاتی معلومات کے مطابق انٹیلی جنس کی ٹیم اس آپریشن کی نگرانی کر رہی تھی اوراس گاڑی کا تعاقب مانگا منڈی سے نکلنے کے بعد شروع کر دیا گیا تھا کیونکہ یہاں سے سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے مطلوب گاڑی کی نشاندہی ہو گئی تھی۔یہ گاڑی کیوں مطلوب تھی ۔ اس کی وجہ شوکت جاوید نے نہیں بتائی ا ور نہ انٹیلی جنس افسران کے نام بتائے جو اس آپریشن کی نگرانی میں شامل تھے۔
میری جچی تلی رائے ہے کہ حکومتی وزرا کو افسر شاہی نے دیدہ دانستہ گمراہ کیا اس لئے حکومت نے بعض پولیس افسروں کے خلاف تو کارروائی کی لیکن جن لوگوںنے حکومت کو گمراہ کن اطلاعات دیں اور جن کی بنیاد پر وزرا نے بیانات دئے اور ان کا مضحکہ اڑا تو ان گمراہ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔
اب مقدمے چلیں یا عدالتی کمیشن بنے۔ مرنے والے واپس نہیں آ سکتے مگر یہ امر یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کسی بے گناہ کو پولیس قتل نہ کر سکے۔ قصور میں زینب کے سانحے پر مظاہرین پر میڈم ڈی سی کی سیکورٹی نے سیدھی گولیاں چلائی تھیں۔ اب ایک چھوٹی سی گاڑی میں سوار پانچ سات مسافروں کومارنے کے لئے چھپن گولیاں چلائی گئیں اور گاڑی کے اوپر نشانات بتاتے ہیں کہ فائرنگ باہر سے کی گئی، دروازے کھول کر مسافروں کو نہیںمارا گیا۔ تو خدا کے لئے پولیس سے یہ اختیارو اپس لیا جائے کہ وہ کسی کے اوپر سیدھی گولی فائر کر سکے، ایک فوجی کو محاذ جنگ پر سیدھی گولی چلانے کااختیار تو ہوتا ہے مگر دنیا بھر میں پولیس کو سول افراد پر سیدھا فائر کرنے کی اجازت نہیں ، ہماری پولیس آغاز ہی سیدھے فائر سے کرتی ہے۔لگتا ہے کہ پولیس نئی نئی حکومت کو بد نام کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ ا س پولیس کو پی ٹی آئی نے بھرتی نہیں کیا نہ یہ حکومتی اشاروں پر ناچتی ہے۔ اب تک حکومت اور پولیس کی مڈ بھیڑ چار مرتبہ ہو چکی ہے جس میں ڈی پی او سے لے کرا ٓئی جی کی سطح تک کی مڈ بھیڑ شامل ہے۔ حکومت کو فی الفور پولیس اصلاحات پر توجہ دینی چاہئے۔
حکومت جو کرنا چاہتی ہے، اسے وقت ضائع کئے بغیر کارروائی کرنی چاہئے۔ عمران خان تو کھلاڑی ہیں اور جانتے ہیں کہ ہر گیند کے ساتھ کھیلنا ضروری ہے۔عمران خان جیسے وزیر اعظم اور مرد بحران سے توقع یہی ہے کہ وہ اصلاح احوال کے لئے فوری کارروائی کر گزریں گے۔
آج دو یتیم بچے تو حکومت نے سنبھالنے کااعلان کردیا ہے مگر پولیس اگر وقفے وقفے سے ایسے یتیموں کاا ضافہ کرتی رہے تو ان سب کوکون سنبھالے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...