کم عمری کی شادی اوربین الاقوامی اداروں کی رپورٹس

Jan 26, 2019

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے آج سترکروڑ سے زائد کم عمری میں شادی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو ہزار تیس تک انکی تعداد پچانوے کروڑ ہو جائے گی،بین الاقوامی ادارے سیو دا چلڈرن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر سات سیکنڈ میں پندرہ سال سے کم عمر ایک بچی کی شادی ہو جاتی ہے،رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی سے کسی لڑکی کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے اور ناموافق صورت حال کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس سے سیکھنے، نشو و نما پانے اور بچہ رہنے کے لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے،جن لڑکیوں کی بہت جلدی شادی ہو جاتی ہے وہ عام طور پر اسکول سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ گھریلو استحصال، تشددجیسے واقعات بھی بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے رپورٹ میں دنیا کے ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، درجہ بندی اسکول جانے، کم عمری میں شادی، کم عمری میں حمل، زچگی میں اموات اور پارلیمان میں خواتین کے تحت کی گئی ہے،چاڈ، جمہوریہ وسطی افریقہ، مالی اور صومالیہ ،نائجیریادرجہ بندی میں سب سے نیچے ہیں،کہا گیا ہے کہ جنگی صورتحال سے دوچار ممالک میں لڑکیوں کے تحفظ کی خاطر کم عمری میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے، کئی پناہ گزین خاندان اپنی بچیوں کو غربت اور جنسی استحصال سے بچانے کے لیے بھی ان کی جلدی شادی کر دیتے ہیں۔اب بات ہوجائے وطن عزیز پاکستان کے بارے میں گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اکیس فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے،کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ اور قبائلی علاقوں میں ہے ، کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گا ئو ں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیںعالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے رپورٹ کے مطابق سن 2011 سے دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد چودہ کروڑ ہوگئی جبکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اکیس فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں پچھترفیصد بچیوں اور پچیس فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں ننانوے فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیںرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہوا ہو، بچوں اور بچیوں دونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں،بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ پچاس لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی جبراََکم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیںچونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گا ئو ں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں کم عمری کی شادی سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات جبری شادی اور بلوغت کی عمر سے پہلے شادی ہے جس کے لیئے قانون کو سخت ترین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں