پاکستان دنیا میں اپنے ہی طرز کا ایک ایسا عجیب ملک ہے جس کو بیک وقت بد قسمت ترین اور خوش قسمت ترین کہا جا سکتا ہے ۔ اس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم آج تک اس ملک کے لئے ایک مخلص قوم نہیں بن سکے ، اس ملک کی اشرافیہ سے لے کہ عام آدمی تک جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، ہر کسی کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے اور خوش قسمت اس لئے کہ آزادی کے 72سال گزرنے کے باوجود اللہ تعالی نے آج بھی اس ملک کو قائم دائم رکھا ہوا ہے ۔
حال ہی میں پی پی پی حکومت کے شروع کردہ پروجیکٹ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بارے میں ایسے ہوش ربا انکشافات سامنے آئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے محض چند ہزار روپے کے لئے ہمارے اعلی افسر گریڈ 17سے لے کے 21 تک کے لوگ کس طرح غریبوں ، یتیموں اور بیوائوں کا حق چھین کے کھاتے رہے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور صرف یہی نہیں لاکھوں سرکاری افسر ایسے بھی ہیں جو اپنی بیویوں کے نام پہ اس پروگرام سے مستفید ہوتے رہے ۔ اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے بیرون ممالک کے دورے کئے ، پھر وہ لوگ بھی ہیں جن کے اپنے یا ان کے گھر والوں کے نام پہ گاڑیاں اور جائیدادیں بھی ہیں ۔ یوں تقریبا لگ بھگ آٹھ لاکھ سے زائد افراد کی فہرست تیار کی گئی ہے جو کہ غیر مستحق تھے اور جنہوں نے غیر قانونی طور پر اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا ۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو کہ 2008ء میں شروع کیا گیا تھا آغاز میں جس کی مد میں 70 ارب ہر سال بجٹ میں مختص کئے جاتے رہے اور بعد میں اسے بڑھا دیا گیا ۔ جب اس پروگرام کو شروع کیا گیا تو ٹارگٹ یہ تھا کہ اس سے انتہائی غریب 35لاکھ سے 50لاکھ تک گھرانوں کو فائدہ ہو گا جو کہ ہماری آبادی کا پندرہ فی صد بنتے ہیں ۔
اس پروگرام کی شفافیت پر پہلے دن سے بہت سے حلقوں کے تحفظات تھے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع پہ مختلف طرح عیاں ہوتے گئے ۔ ماضی میں نہ صرف جعلی بھرتیوں کا سکینڈل سامنے آیا بلکہ پیپلز پارٹی کے ہی دور حکومت میں فرزانہ راجہ صاحبہ جو کہ اس وقت بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن تھیں انہوں نے اعتراف کیا کہ بہت سے ڈاکیے پکڑے گئے تھے جو کہ لوگوں کے خود جعلی دستخط کر کے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے ، پھر اسی طرح ن لیگ کے دور حکومت میں کئی حلقوں کی جانب سے یہ گلے بھی سامنے آئے کہ کئی لوگوں کو شروع شروع میں پیسے ملے بعد میں کئی کئی مہینے رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی ۔ اس بات کی بھی ماضی میں بھی نشاندہی ہوتی رہی کہ غیر مستحق لوگ بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ لیکن ان معاملات کو کبھی سنجیدگی سے دیکھا ہی نہیں گیا تھا ۔ ثانیہ نشتر صاحبہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد اس پروگرام کی چئیر پرسن منتخب ہوئیں اور دن رات کی محنت کے بعد یہ حقائق منظر عام پر لے کے آئیں ۔
پی پی پی کے دور حکومت میں ان کے پالیسی سازوں نے ایسے شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی جن سے زیادہ سے زیادہ اپنے ووٹ پکے کئے جا سکیں ۔ دنیا کی بڑی سے بڑی اکانومی والے ممالک کو بھی اگر دیکھیں تو کہیں بھی ایسی کوئی پالیسی یا پروگرام نظر نہیں آئے گا جس کے مطابق غربت ختم کرنے کے لئے لوگوں کے گھروں میں جا کے پیسے تقسیم کر آئیں بجائے کہ ہوتا یہ کہ لوگوں کو روزگار مہیا کئے جاتے ، انہیں اپنے پاوٗں پہ کھڑے ہونے کے لئے مدد دی جاتی ہوا یہ کہ اس سے لوگوں میں رہی سہی غیرت کو تو ختم کرنے کی کوشش جو ہوئی سو ہوئی مستحقین تک امداد پہنچی ہی نہیں اور یوں غربت کے مارے لوگوں میں احساس محرومی اور بڑھ گیا ۔
پاکستان کی کل آ بادی کا ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں جن کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں کسی مستحق گھرانے کو اگر اتنے روپے مل بھی جائیں تو بالکل اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے لیکن اگر یہ 70ارب آج سے دس سال پہلے لوگوں کی فلاح کے لئے لگائے جاتے تو ہم ان ستر ارب سے 200ہسپتال بنا سکتے تھے ، سو سے زائد ہائی سکول بنائے جا سکتے تھے ، سو سے زیادہ پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگا سکتے تھے ۔ ان اقدامات سے پانچ ہزار لوگوں کو ملازمتیں مل جاتیں اور ان سہولیات سے کم از کم بیس لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچتا اور وہ صرف ایک یا دو سال کے لئے نہیں بلکہ مستقل فائدہ مند ہوتا اور اگر یہی رقم پی پی پی حکومت نے ہر سال تعلیم پہ لگائی ہوتی تو پانچ سالوں میں ایک کروڑ بچہ سکول جا سکتا تھا یعنی اپنی ساری نئی نسل کو علم کے راستے میں ڈال چکے ہوتے ۔
بات ساری نیت کی ہے اگر انسان کی نیت ٹھیک ہو اور کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہو تو چھوٹی چھوٹی مشکلیں خود آسانی کے راستے تلاش کر لیتی ہیں ۔ پی پی پی حکومت کے بعد نواز لیگ حکومت نے بھی زرداری صاحب کی ناراضگی کے ڈر سے اس کو ہاتھ نہ لگایا اور معاملہ یوں کا توں چلتا رہا ۔
اب ثانیہ نشتر صاحبہ سے گزارش ہے کہ جب وہ اتنے اہم انکشافات کر ہی چکی ہیں تو ایسے لوگ جنہوں نے بی آئی ایس پی سے غلط فائدہ اٹھایا ان کو سزاوں کے ساتھ بھاری جرمانے بھی عائد کئے جائیں جن سے حا صل ہونے والی رقم حقیقی طور ایسے افراد کو ہنر مند بنانے پہ خرچ کی جائے ، بچوں کی تعلیم پہ خرچ ہو جو دراصل اس کے مستحق ہیں کاش کے ہمارے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے تھنک ٹینک اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیں اور یہ جان لیں کہ محض چند ہزار کے وظیفے چند لاکھ لوگوں میں بانٹ دینا مسائل کا حل نہیں ہے ۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا اور غریبوں کی مشکلات تب تک ختم نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ہم ان کو ہنر مند بنا کے با عزت روزگار نہ دیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو تعلیم یافتہ نہ بنائیں ۔