پاکستان تو وہ ملک ہے جو گندم کی کاشت اور پیداوار میں ہر سال اضافے کے سبب ایشیاء کے عظیم ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس سال آٹے کے بحران نے پورے ملک میں افراتفری پھیلا دی ہے۔ لیکن آٹے کا بحران محکمہ خوراک پنجاب کے اعلیٰ حکام کی ناقص پالیسیوں اور ناکام حکمت عملی کے باعث عالم وجود میں آیا۔ پوری قوم کے علم میں یہ بات ہے کہ محکمہ خوراک، فلور ملز، پاسکو اور دوسرے زرعی اداروں کے پاس گندم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اس حقیقت کی تصدیق ہو چکی ہے کہ صرف دس سے بیس فیصد فلور ملوں کے مالکان محکمہ خوراک سے لی گئی گندم کو آٹے کی صورت میں اوپن مارکیٹ کو فراہم کر رہے ہیں جبکہ دیگر فلور ملوں کے مالکان محکمہ خوراک کے افسران کے ساتھ ملی بھگت پالیسی کے تحت آدھو آدھ کھیل رہے ہیں۔ فلور ملوں کو فراہم کی جانیوالی گندم کا آدھا آٹا تو سرکاری نرخوں پر فراہم کیا جا رہا ہے اور بقایا آدھا آٹا بلیک میں فروخت کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فلور مل مالکان کو معاہدے کے مطابق سو کلو گرام کے عوض کھلی مارکیٹ میں آٹھ سو پانچ روپے میں دس کلو گرام آٹا عوام کو فراہم کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ جس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا جسکے نتیجے میں عوام کو سستے آٹے سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ فلور ملز مالکان اور سرکاری افسران جعلی طور پر افراطِ زر کمانے میں مصروف ہیں اور پاکستانی عوام آٹے کی فراہمی سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کرپٹ افسران کو نوکری سے نکال دے۔ محکمہ خوراک پاسکو اور فلورملز مالکان کے پاس گندم کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن پنجاب بھر میں گندم اور آٹے کی بین الاضلاعی اور صوبوں کے درمیان ترسیل پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ جس کے باعث تمام خارجی چیک پوسٹوں پر اضلاع کے درمیان گندم کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے آٹے اور گندم کے ہزاروں ٹرک فلور مل مالکان کو واپس بھیج کر بعض کیخلاف ایف آئی آر بھی درج کروا دی گئی ہیں۔ اس اقدام کے باعث صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختون خواہ میں گندم کے بحران نے جنم لے لیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی اب پاکستان میں گندم کے بحران کو اپنی خبروں میں آشکار کررہا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سندھ میں آٹے کے بحران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آٹے کا بحران ان افراد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو لُوٹ مار کی عادی ہیں۔ کیس کے سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں انکشاف کیا کہ سندھ کے مختلف اضلاع سے گندم چوری کرنیوالے سرکاری اور غیر سرکاری افراد کیخلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ تاہم ملزمان نے گوداموں سے گندم چوری کر کے مارکیٹ میں فروخت کر دی ہے۔ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کیخلاف دائر درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے ہیں کہ گندم کا بحران کیسے پیدا ہوا اور کس نے پیدا کیا اس بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب مامون رشید شیخ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔ گندم کا بحران خود ساختہ ہے اور مافیا کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ صوبہ سندھ میں گندم کا بحران عروج پر ہے۔ یوٹیلٹی سٹوروں پر بھی گندم اور آٹا نایاب ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے پاسکو نے اعلان کیا ہے کہ وہ صوبہ سندھ کو دس ہزار ٹن گندم بھجوا رہا ہے۔ جی ایم پاسکو نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن گندم صوبہ سندھ کو بھجوا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر چار لاکھ ٹن گندم بھجوانے کا معاہدہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ کراچی اور دیگر شہروں میں آٹے کا بحران نہیں رہے گا۔ وفاقی حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گندم درآمد سے پاکستانی کسانوں کو نقصان ہو گا۔ پاکستان میں گندم کی وافر مقدار پیدا ہوتی ہے۔ پاکستانی گندم دوسرے ممالک میں برآمد بھی کی جا رہی ہے لیکن اس سال گندم کے قحط کی وجہ سے برآمدات کو روک دیا گیا ہے۔ گندم کی درآمد سے پاکستانی کسانوں کو نقصان ہو گا۔ درآمدی گندم 31 مارچ کو پاکستان پہنچے گی جبکہ صوبہ سندھ کے زمینداروں کی گندم پندرہ مارچ تک مارکیٹ میں آ جائیگی۔ اس لیے صوبہ سندھ کے ہائی کورٹ کو چاہئے کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے گندم درآمدی اقدام اور فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ اب آتے ہیں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے اقدامات کی طرف۔ عمران خان نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ اس کمیٹی میں بہت سے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی آٹا گندم اور اس کے بحران کی وجوہات اور اسکے ذمہ داران کا تعین کریگی۔ کمیٹی ملک میں گندم کے ذخائر، سپلائی اور دیگر امور کا جائزہ بھی لے گی۔ یہ کمیٹی چھ فروری تک وزیر اعظم کو تحقیقی رپورٹ پیش کریگی۔ آٹے کی گرانی سے پاکستانی متوسط طبقے اور غریبوں پر زندگی تنگ ہو چکی ہے۔ غریب آٹے کی عدم دستیابی پر فاقہ کشی کر رہے ہیں۔
غریبوں کو آٹا نہیں دستیاب
ہیں غربت کے بادل بھی چھائے ہوئے