راقم فی الوقت آسٹریلیا کے دورے پر ہے جہاں جنگلوں میں بھڑکتی آگ ، اسکے نتیجے میں مضر دھواں اور جان لیوا خطرات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آسٹریلیا ایک جزیرے کی مانند بّراعظم ہے جہاں خشکی اور گرمی کے باعث ہر برس جنگلات میں آگ لگتی ہے لیکن اس برس یہ آگ قابو میں نہیں آرہی ہے اور تاریخ کے مطابق سب سے بڑی آگ ہے۔1851ء سے ابتک 800افراد جنگلات میں آگ کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں ۔اس باعث آگ کے باعث 26ملئن ایکٹر اراضی متاثر ہوئی ہے ۔جبکہ 5,900عمارتیں بشمول 2,204رہائشی مکانات نذر آتش ہوئے۔21جنوری 2020ء تک 32افراد اور ایک کروڑ جانور اور پرندے آگ کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔آسٹریلیا میں آگ کے خطرات کے باعث سڈنی کے علاوہ تمام شہروں میں سال نو کے موقع پہ آتش بازی کے مظاہروں پہ پابندی عائد کردی گئی۔ آسٹریلیا کے فائر فائٹر آگ بھجانے کی خاطر جدوجہد میں مشغول ہیں جبکہ ہزاروں رضاکار اور آسٹر یلوی مسلح افواج بھی اس مہم میں شامل ہیں۔گرجا گھروں میں خصوصی عبادت کے علاوہ یہاں کے مسلمانوں نے نماز استقاء کا اہتمام کیا جسکے نتیجے میں بارش تو ہوئی لیکن آگ بجھانے کے لئے ناکافی تھی۔ آسٹریلیا کے مقامی باشندے سیاہ فام ایبو ریجنی کے پاس جنگلات میں بھڑکتی آگ کا حل موجود ہے جو صدیوں پرانی روایات پر مبنی ہے۔ مجبور ہو کر آسٹریلوی میڈیا اور عوام اب اپنی حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ ایبوریجنی ماہرین خد مات حاصل کی جائیں۔ یہاں ایبور یجنی سیانوں کی تراکیب کا جائزہ لینا لازمی ہے ۔ایبور یجنی بڑی آگ سے بچائو کی خاطر مدافعتی آگ لگانے کے طریقے پہ عمل کرتے ہیں۔ وہ اگنے والی گھاس ،زمین کے معائنے اور ملبے کے ڈھیرکا معائنہ کرتے ہیں تاکہ انہیں نذر آتش کر کے مدافعتی انتظامات کئے جا سکیں اور بڑی آگ سے بچا جا سکے۔ چھوٹے پیمانے کی آگ سے حشرات الارض بھی محفوظ رہتے ہیں جو کہ زمین کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور بڑے درخت بھی بچالئے جاتے ہیں۔موجود ہ دور کے فائر فائٹر بھی مدافعتی آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں اس علم پہ عبور حاصل نہیں اور بعض اوقات وہ بچائو کے بجائے خطرناک آگ لگابیٹھتے ہیں جو ہولناک ہوتی ہے اور بے قابو ہوجاتی ہے۔ قدیم حکمت عملی مختلف پہلوئوں پہ غور کرتی مثلاً آگ کب شروع کی جائے؟سال کے کس مہینے میں آگ لگائی جائے؟ آگ کب تک جا ری رہے گی؟ آگ جلانے کی جگہ پہ کون سے نباتات اگتے ہیں؟ وہاں موسم کیسا ہے؟ قحط سالی تونہیں؟آسٹریلیا کے نوآبادیاتی باشندوں نے ایبو ریجنی سیانوں کی مدافعتی آگ لگانے کی ترکیب کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن ناتجریہ کاری کے باعث وہ زیادہ نقصان کردیتے اور ابتک یہی حال ہے ۔ماحولیاتی نظام میں تبدیلی کے باعث آسٹریلیا میں جنگلوں میں آگ کو نقصان پہنچایا لیکن اتنا نہیں جتنا کہ انسان نے خود اپنی غفلت سے اس عذاب کو جنم دیا ۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے جہاں فضائی اسپرے سے بھی بھڑکتے ہوئے شعلوں پہ قابو نہ پایا جاسکا۔آسٹریلوی عوام کو اس آفت سے نمٹنے کی خاطر اپنی حکومت سے درخواست کر رہی ہے کہ دو اقدامات اپنائے جائیں جن میں اپنی آبادی اور رہائشی وتجارتی عمارات کی ڈیزائن بھی شامل ہیں۔ آسٹریلوی حکومت کو طویل مدتی حل تلاش کرنا چاہیے۔ دیسی یا قدیم تکنیک ایک حدتک کا میاب ہوں گی لیکن جنگلات کے محلقہ آبادی اور کمیونٹی کی ٹائون شپ کا مئوثر ڈیزائن لازمی ہے ایبور یجنل تکنیک کو اپنانے میں ابتداء میں زیادہ رقم کی ضرورت ہوگی لیکن یہ آگ بجھانے کی خاطر چل کر موثر ثابت ہوگی۔
میری ملاقات آسٹریلوی آگ بجھانے کے ماہرین سے بھی ہوئی۔ یہ بہادر لوگ اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر بھڑکتے ہوئے شعلوں سے لڑتے ہیں، آگ بجھانے کی کوشش کے علاوہ یہ لوگوں کو بچانے کے علاوہ جانوروں کو بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک محطاط انداز ے کے مطابق جو یونیورسٹی آگ سیڈنی نے لگایا ہے، موجودہ آسٹریلوی جنگلوں میں لگی آگ کے نتیجے میں5کروڑ جانور جن میں چڑیائیںاور رینگنے والے جانور بھی شامل ہیں ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں وہ جانور بھی شامل ہیں جنکی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔ محققوں کے مطابق سب سے زیادہ نقصان کو آلا بھالوئوں کی نسل نے اٹھایا۔ یہ چھوٹا ساپیارا ، گدگدا ساجانور یوکلپٹس کے پتے کھا کر گذار کرتا ہے اس درخت کے پتوں میں ہلکا سانشہ ہوتا ہے۔ جسکے باعث یہ جانور تیز رفتاربھاگنے سے قاصر ہے۔دوسرے یہ کہ پوکلپٹس کے پتوں میں تیل ہوتا ہے جنہیں کھا کر کو آلا بھالو آن کی آن میں جل کر بھسم ہوجاتے ہیں ۔اس نایاب جانور کی نسل پہلے ہی نا پید تھی جواب گھٹ کر تقریبا تیس فیصد رہ گئی ہے۔تیز ہوائوں کے چلنے سے بھی آگ زیادہ بھڑکتی ہے۔ قریب ہی واقع کنگارو جزیرے پہ جو ابتک آگ کی لپیٹ سے محفوظ تھا،آگ کے شرارے تیزہوانے وہاں پہنچادئے جس سے پور اجزیرہ بھڑک اٹھا۔ اس جزیرے پہ زیادہ آباد وہ جانور تھے جن کی نسل ناپید ہے۔ مثلاً کنگار و کی خاص اقسام، کو آلا بھالو، پینگوئن اور بہت سے دوسرے جانور جنکی جانوں کو خطرہ لاحق ہے جن آگ بجھانے والے عملے سے میری ملاقات ہوئی وہ شدید غصے میں تھے ۔انکے خیال میں حکومت کی غفلت کی وجہ سے اس دفعہ آسٹریلیا شدید آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے ،انکا خیال ہے کہ آگ سے بچائو کی خاطر مدافعتی نظام کے لئے زیادہ فنڈ مختص نہیں کئے گئے ۔آسٹریلیا میں کوئلہ جلانے کی اجازت ہے جسکا اثر ماحولیاتی نظام پر براہ راست پڑرہاہے اور اس برس زیادہ شدت کی آگ لگی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ماحولیات کو آگ پہ اثر انداز ہونے کی وجہ سے کوئلے کے بطو رایندھن استعمال پہ پابندی لاگو ہونی چاہیے اور حکومت کو عوام کو اس جانب مائل کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سبزہ اگائیں۔ آگ کی باعث پورے جزیرئہ آسٹریلیا میں مہلک دھوئویں کے بادل منڈلا رہے ہیں جو صحت کے لئے مضر ہے۔
ٹی وی پہ مختلف پروگراموں میں عوام سے آگ کے خلاف مدافعتی اقدام اٹھانے کے علاوہ چندے کی بھی اپیل کی جاتی ہے کیونکہ لوگوںنے جان ومال کا بھاری نقصان اٹھایا ہے اور انہیں دوبارہ آباد کرنے کی خاطرخطیر رقم درکارہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ذرایع سے امداد نہ آئے کے برابر ہے اور اس وقت آسٹریلیا کے عوام کواس آفت اسکے اثرات سے بچائو کی خاطر اور نئے سرے سے آباد ہونے کے لئے بھاری بجٹ مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام تدابیر کے علاوہ عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آگ سے بچائو کی خاطر خود کیا کر سکتے ہیں۔ اللہ مصیبت کی اس گھڑی میں آسٹریلیا ء کے عوام کی مدد فرمائے۔ گزشتہ برس امیزن کے جنگلوں میں آگ لگنے کی وجہ سے دنیا بھر سے امداد پہنچائی گئی تھی۔ا س وقت آسٹریلیاء کو بھی اسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔