کراچی(کامرس رپورٹر)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران اچھی روئی کے بھائومیں فی من100تا200روپے کا اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز نے خریداری محتاط کردی،جس کے باعث کاروباری حجم نسبتاً کم ہوگیا حکومت نے 15 جنوری سے روئی کی درآمد پر سے درآمدی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اپٹماکے ذرائع کے مطابق اس کا ایس آراوجاری کردیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے توانائی پر سے سبسڈی ختم کردی جس کی وجہ سے دیگر صنعتوں کے ساتھ ٹیکسٹائل کی صنعت پر بھی بجلی پر فی یونٹ 8 روپے کا اضافہ کردیا جو12روپے سے بڑھ کر20روپے فی یونٹ ہوگیاہے۔اپٹمانے اس اضافہ کے خلاف احتجاج کیا ہے اگر بجلی کی مد میں کمی نہ کی گئی تووہ ہڑتال پر بھی جا سکتے ہیں۔اپٹماکے مطابق ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ روئی کا کاروباری حجم کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے۔صوبہ سندھ میں روئی کا بھائو فی من 7000تا9400 روپے پھٹی کا بھائو فی40کلو 3000تا4300 روپے رہا جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھائو فی من7800تا9400روپے چل رہا ہے۔ پھٹی کا بھائو فی40کلو3200تا4600 روپے چل رہا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں روئی کی صرف3000 گانٹھوں کا اسٹاک رہ گیا ہے،جبکہ پھٹی ختم ہوچکی ہے ۔ ملک میں روئی کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے بنولہ ، کھل اور تیل کے بھائو میں اضافہ کا رجحان ہے۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من100روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من9100روپے کے بھائو پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چئیرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں اتار چڑھائو کے بعد مندی کا رجحان رہا۔چین اور امریکا کے مابین اقتصادی تنازعہ کے پہلے مرحلے پر دستخط ہوچکے ہیں تاہم چین نے فی الحال کپاس کے کوئی سودے نہیں کئے جس کے باعث مارکیٹ میں غیر یقینی صورت حال ہے USDA کی ہفتہ وار رپورٹ میں گزشتہ ہفتہ کے نسبت روئی کی برآمد میں 32 فیصد اضافہ ہونے کی مارکیٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا دوسری جانب چین میں 25 جنوری تا 02 فروری تک نئے سال کی LUNAR کی تعطیلات کی وجہ سے بھی چین نے خریداری موخر کر رکھی ہوگی۔
چین میں تعطیلات کے باعث تقریبا 7 دن سے زیادہ دنوں تک کاروبار معطل رہتا ہے۔ چین میں کروناوائرس کی شدید وبا پھیلنے کی وجہ سے پوری دنیا کی کاروباری منڈیوں میں سست بازاری دیکھنے میں آئی ہے۔بھارت میں روئی کا بھائو مسلسل کم ہوتا جارہا ہے گو کہ سی سی آئی روئی کا بھائو مستحکم رکھنے کیلئے وافر مقدار میں روئی کی خریداری کررہی ہے ہدف 50 لاکھ گانٹھیں خریدنے کا ہے لیکن تاحال 38 لاکھ گانٹھیں خریدی جا چکی ہے۔حکومت نے صنعتوں کی توانائی پر سے سبسڈی ختم کردی ہے جس کے باعث برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کے متعلق اپٹماکے علاوہ 82 صنعتوں کی سربراہی کرنے والے پاکستان بزنس مین کونسل نے کہاہے کہ حکومت نے گزشتہ 18 مہینوں میں توانائی کی قیمت میں 35 فیصد اضافہ کردیا ہے جس کے باعث برآمدات بری طرح متاثر ہورہی ہے پی بی سی نے کہا ہے کہ حکومت اور کاروباری اداروں کے درمیان توانائی کے مد میں اضافہ کے سبب ایک قسم کی جنگ چل رہی ہے اپٹما بھی مسلسل اسی قسم کی شکایت کررہی ہے۔20جنوری کو وزیر اعظم کی زیر صدارت ملک میں کاٹن پالیسی اور کپاس کی فصل سے متعلق معاملات پر اعلی سطحی اجلاس ہواتھا، جس میں وفاقی وزیرِ برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی مخدوم خسرو بختیار، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین، ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے کاٹن کے کاشتکار، برآمد کنندگان اور کاٹن کمیٹی کے ممبران شریک ہوئے۔وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ کاٹن کی سپورٹ پرائس مقرر کرنے کے حوالے سے تجاویز کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کی جائیں، سیڈ ایکٹ میں ترمیم اور کاٹن کمیٹی کی ازسرنو تکمیل کو جلد مکمل کیا جائے۔نسیم عثمان نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کپاس کی پیداوار بڑھانے میں حکومتی ادارے کتنے سنجیدہ ہے اس بات کا ادراک اس اقدام سے عیاں ہوتا ہے کہ ایگریکلچر ایمرجنسی کی مد میں 360 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے ایک کوڑی بھی نہیں رکھی گئی وزیر اعظم کو اس معاملے پر خصوصی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ایک اعلی سطحی اجلاس میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے مسائل کی نشاندہی کی ہے آئندہ سیزن میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔حکومت کی جانب سے پہلے بھی کئی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہی ہیں لیکن وہ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پاتی۔ نئی کمیٹی کو زیادہ موثر بنانے کیلئے اس میں نجی شعبہ کے ماہرین ایگری کلچرل سائنٹسٹ کپاس سے تعلق رکھنے والے مثر اداریں KCA ، PCGA ، APTMA ، PCSI ، PCCC وغیرہ علاوہ ازیں کراچی کاٹن بروکرز فورم کی جانب سے ہم بھی حکومت کی اس گھمبیر مسئلہ کی جانب نشاندہی کرتے رہتے ہیں گزشتہ 18.01.20 کی ہفتہ وار رپورٹ میں بھی کئی مفید تجاویز پیش کی ہیں اگر مزید معلومات درکار ہوں تو ہم سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔پہلے ہی ہماری معیشت شدید بحرانی کیفیت میں ہے موجودہ سیزن میں کپاس کی درآمد پر تقریبا 2 ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنا پڑا اگر آئندہ سیزن بھی کپاس کی پیداوار کم ہوئی تو مزید زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا جو معیشت پر ناقابلہ برداشت بوجھ ہوگا۔