نیویارک (این این آئی) ماہرین اور تفتیش کاروں پر مشتمل دی لینسیٹ نے تنازع کا شکار علاقوں میں عالمی برادری کی خواتین اور بچوں کی صحت کو ترجیح دینے میں ناکامی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاہے کہ عدم تشدد کے سبب مرنے کا خطرہ زیادہ شدت اور دائمی تنازعات کی قربت کے ساتھ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے ، میڈیارپورٹس کے مطابق دی لینیسٹ کی رپورٹ میں کہاگیاکہ انسانی حقوق کے اداروں اور امداد دہندگان سے سیاسی اور سیکیورٹی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی عہد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ سب سے زیادہ خطرات سے دوچار بچوں اور خواتین کے تحفظ کیلئے ترجییحی بنیادوں پر پہنچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سینٹر فار گلوب چائلڈ ہیلتھ اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ کے پروفیسر ذولفقار بھٹہ نے کہا کہ نئے تخمینے جنگ کی وجہ سے آسانی سے روکنے والے متعدی امراض، غذائی قلت، جنسی تشدد، اور خراب دماغی صحت اور ساتھ ہی پانی اور طبی سہولیات جیسی بنیادی سروسز کی تباہی کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔نئے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے، مزید تنازعات، شہری علاقوں میں روایتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں 2000 کے بعد سے دنیا بھر میں مسلح تنازعات سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عدم تشدد کے سبب مرنے کا خطرہ زیادہ شدت اور دائمی تنازعات کی قربت کے ساتھ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے ، افریقہ میں جنگی تنازعات کے حامل علاقوں میں بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کے پرامن علاقوں کی خواتین کے مقابلے میں مرنے کے تین گنا زیادہ امکانات ہیں اور نومولود بچوں میں موت کا خطرہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ 1995 سے 2015 کے درمیان افریقہ، ایشیا اور امریکا میں لڑائی کے بالواسطہ نتائج سے تنازعات کے 50 کلومیٹر کے اندر 67 لاکھ سے 75 لاکھ نومولود اور پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔امریکن یونیورسٹی لبنان سے شریک مصنف ڈاکٹر ہالہ بل گٹاس نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ خواتین اور بچوں پر مسلح تصادم کے بالواسطہ اثرات اصل لڑائی کے اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔