ایک طرف اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرتے افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر عزم ہیں، پوری قوت کے ساتھ ملک دشمنوں کو کچلنے، وطن عزیز کو پرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دے رہے۔ یقیناً کامیابی سے آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف سازشی، انسانیت دشمن اور بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے بھارتی فوج کے ذہنی تناؤ کا شکار ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکنڈ نروانے نے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ یہ اس ملک کی فوج کے سربراہ کا اعتراف ہے جس کی شدت پسند پالیسیوں کی وجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ اس ملک کی فوج کے سربراہ کا اعتراف ہے جو اگست دو ہزار انیس سے لاکھوں کشمیریوں پر لاک ڈاؤن لگائے بیٹھا ہے، یہ اس ملک کی فوج کے سربراہ کی ذہنی کیفیت ہے جس نے کشمیر کی سیاسی قیادت کو قید کر رکھا ہے۔ چین سے پھینٹی کھا رہا ہے، پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو منہ کھانا پڑتی ہے۔ ذہنی دباؤ کا شکار بھارتی افواج سے کسی بھی غیر معمولی حرکت کی امید کی جا سکتی ہے۔ خطے کا امن ذہنی طور پر عدم توازن کی شکار افواج کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ بھارت اپنی دفاعی صلاحیت کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے تو کرتا ہے لیکن اس کی تیرہ لاکھ میں سے ساڑھے چھ لاکھ فوج ذہنی مسائل کا شکار ہے۔ یہ اعداد و شمار اور حقائق کسی اور نے جاری نہیں کیے بلکہ بھارتی افواج کے مشترکہ تھنک ٹینک یو ایس آئی کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ تیرہ لاکھ بھارتی فوج میں سے پچاس فیصد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ ذہنی تناؤ کا سامنا کرنے والی فوج کو علاج کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر کے بیگناہ اور نہتے انسانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے فوجیوں کو ذہنی تناؤ سے نجات دینے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں پر نہ ختم ہونے والے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ رویہ درحقیقت ذہنی عدم توازن کا شکار ہونے والی فوج ہی اختیار کر سکتی ہے۔ دنیا کو چھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم اور طاقت کے غیر ضروری استعمال پر نوٹس لینا چاہیے ذہنی دباؤ کے حوالے سامنے آنے واپی رپورٹ کے بعد تو لازم ہو چکا ہے کہ دنیا بھارتی افواج کی کارروائیوں پر لبوں کشائی کرے۔
ڈونلڈ ٹرمپ رخصت تو ہو گئے ہیں لیکن امریکہ کی تاریخ میں انہوں نے کئی چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔ یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ وہ صدارت چھوڑنے کر رضامند نہیں تھے بلکہ وہ عہدے پر برقرار رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انتخابی نتائج کو دل سے تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ صدارت چھوڑ گئے ہیں۔ یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ اقتدار چھوڑ گئے ہیں ورنہ میاں نوز شریف کی طرح ہوتا تو نعرہ لگاتا مجھے کیوں ہروایا، مجھے کیوں نکلوایا، مجھے کیوں اتارا۔ یہ نظام کے مضبوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری دنوں میں امریکی تاریخ کے چند ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا۔ یہ ٹرمپ کی بے چینی اور ذہنی انتشار کا ہی نتیجہ تھا کہ انتخابات میں ناکامی اور عدالتی محاذ پر بھی پسپائی کے باوجود وہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری دنوں کے حیران کن معمولات کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے رپورٹنگ کرنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ایام کی کوریج کرنے والے صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے ا?خری دنوں میں بہت اداس تھے۔ انہوں نے خود کو کافی تنہا کر لیا تھا۔ صحافی کے مطابق چار برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ٹرمپ نے خود کو اتنا تنہا کیا یہ ان کی زندگی کا حصہ نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے الوداعی تقریب سے خطاب کیا اس تقریب میں بھی محدود افراد نے شرکت کی جب کہ اس دوران صحافیوں کی تعداد بھی بہت کم رہی"۔
ڈونلڈ ٹرمپ چلے گئے ہیں ان کی رخصتی یہ پیغام دیتی ہے کہ پرامن انتقال اقتدار ہی مہذب ملکوں کا خاصہ ہے، پرامن انتقال اقتدار ہی ترقی کی ضمانت ہے۔ نظام کی مضبوطی اقتدار کے چاہت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کاش کہ ہم ایسے ہی نظام کے مطابق آگے بڑھ سکیں۔ ہمارے ملک میں کبھی بھی کسی سیاسی جماعت نے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے ہر انتخابات کے بعد آئندہ انتخابات تک دھاندلی کا شور رہتا ہے۔ پانچ سال تک حکومت اپنے انتخاب کا دفاع کرتی رہتی ہے اور ان پانچ برسوں میں اپوزیشن کا سارا زور صرف اور صرف منتخب حکومت پر دباؤ قائم رکھنے اور اس کی توجہ تقسیم کرنے پر لگا رہتا ہے۔ اس کشمکشِ میں عوامی مسائل خاک حل ہوں گے، ترقیاتی منصوبوں پر خاک کام ہو گا۔ آج بھی دیکھ لین مولانا فضل الرحمٰن، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں سڑکوں پر ہیں اور دھاندلی دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں۔ حکومت کے خلاف متحد ہیں گوکہ حکومت بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے لیکن اپوزیشن نے بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہماری جمہوریت میں صرف اقتدار ہی ہے، یہاں کی جمہوریت میں اپوزیشن کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل مختلف جماعتوں کے مختلف بیانات ان کی بے چینی اور منقسم سوچ کا اظہار کرتے ہیں حتیٰ کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بھی ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے۔ اس سے زیادہ پتلی حالت اور کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کی مسلم لیگ نے بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے یوں نہ نہ کرتے کرتے آخر نون لیگ انتخابی عمل کا حصہ بن رہی ہے اگر یہی کچھ کرنا تھا تو اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی۔
آج سے نیشنل سٹیڈیم کراچی میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے مابین ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہو رہا ہے۔ لگ بھگ چودہ برس کے طویل عرصے کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہے۔ پاکستان کی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف شکست کے بعد ہوم گراؤنڈ پر بھی جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی آسان نہ ہو گی۔ اس کرکٹ سیریز کی سب سے اہم بات ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا سفر ہے۔ اس سفر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان کا کردار سب سے اہم ہے۔ فوجی جوانوں نے اپنا خون دے کر ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا ہے ان کے ساتھ امن و امان کے قیام کے اس سفر میں رینجرز، پولیس اور نہتے پاکستانیوں نے بھی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی بھارتی سازشیں ناکام ہو رہی ہیں اور ہمارے ویران میدان ایک مرتبہ پھر آباد ہو رہے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم یہی ہے۔ جہاں تک تعلق پاکستان کرکٹ ٹیم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی کارکردگی ہے اس بارے کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ دونوں بری طرح ناکام ہیں۔