سبز ہلالی پرچم تلے امن کی خواہش لیے 2007 سے ہر دو سال بعد منعقد ہونے والی کثیرالملکی بحری مشق امن خطے میں بین الاقوامی باہمی تعاون اورمشترکہ مفادات کی سمت اہم پیش رفت ہے۔ یہ امن کی خاطر اٹھایا گیا پاکستان کا وہ قدم ہے جس کے تحت سمندروں کو کسی بھی قسم کے خطرات سے آزاد اور بلا روک ٹوک بین الاقوامی آمدو رفت کے لیے محفوظ بنایا جا سکے گا۔ یہ مشق عالمی بحری قوتوں کومؤثر انداز میں تحفظ کے ذرائع،پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو پرکھنے،نقل و حرکت کی مہارت،مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف سمندروں میں روایتی اور غیرروایتی سیکیورٹی کے خطرات سے نبرد آزما ہونے اور باہمی خیالات کے تبادلے جیسے مواقع فراہم کرتی ہے۔سیکیورٹی کا لفظ پوری دنیا میں مختلف مطالب اور نقطہ ہائے نظر کے حوالے سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ریاستوں کے لیے سلامتی کا نظریہ علاقائی حدود اربعہ کی بنا ء پر انتہائی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ تاہم سلامتی کا تصور عام طور پر وسیع زمینی حقائق کے حوالے سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ ریاستیں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ باہمی تعاون جیسے اقدامات کا قیام عمل میں لاتی ہیں. یہاں تک کہ مشترکہ فوجی مشقیں بھی متعدد مقاصد کی تکمیل کے لئے ریاستوں کی باہمی افہام و تفہیم سے ترتیب دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات ایسے انتظامات اور مشقوں کو علاقائی اور غیرعلاقائی ریاستیں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ بھی سمجھ لیتی ہیں۔ خطرے کا یہ تاثر جغرافیائی وسیاسی ماحول میں غیر یقینی صورتحال بھی پیدا کر دیتا ہے اور ریاستیں داخلی طور پر عدم تحفظ کی بنا پر اختلافات اور تنازعات کا شکار ہو جاتی ہیں۔سمندری تحفظ کثیر الجہت مقاصد کا امتزاج ہوتا ہے جسے لا متناہی خطرات اور خدشات کا سامنا ہے۔ عام طور پر مختلف ریاستیں قومی سلامتی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی دفاعی ضروریات اور ترجیحات کو مقدم رکھتی ہیں اور مسلسل ان میں بہتری لانے کی تدابیر کو عملی شکل دیتی رہتی ہیں تا کہ وسیع تر حدود میں اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رہ سکیں۔ سمندری حدود میں مشترکہ مشقیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔اس طرح خطرے کا تاثر یا پیغام دوسری قوتوں تک مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال میں تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔اس کی ایک مثال امریکہ، جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان 2007 میں ہونے والے سلامتی کے چہار جہتی مذاکرات کی ناکامی ہے جو خلیج بنگال میں ہونے والی دوسری مالا باربحری مشق کے انعقاد کے فوراً بعد چائنہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کی بنا پر ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ اسے چین اور اس کے اتحادیوں نے چین کی ایشیاء بحرا لکاہل حکمتِ عملی اور خطے میں اس کی عملداری سے تعبیر کیا جس نے طویل عرصے تک اس کے مقاصدکے حصول کو یقینی بنائے رکھا۔ بحر ہند کا خطہ ازمنہ قدیم سے ہی اپنی تجارت، مہمات اورآبی گزرگاہوں کی وجہ سے بہت اہم رہا ہے۔سازگارموسموں، گرم مرطوب آب و ہوا، غلاموں کی دستیابی، کثیر وسائل اور دوسرے علاقائی عوامل نے خطے کو مزید پر کشش بنا دیا،جس کے باعث اس وقت کی عظیم طاقتوں اور سلطنتوں کی خطے سے متعلق دلچسپی نے اسے مطلوبہ ہدف بنائے رکھا۔ بحرِ ہند دنیا کا تیسرا بڑا سمندر ہے جو تین اطراف سے آسٹریلیا،ایشیاء اور افریقہ کی زمینی حدود میں گھرا ہوا ہے جبکہ چوتھی سمت میں بحرِ منجمد جنوبی واقع ہے۔ پاکستان مغربی بحرِ ہند میں تزویراتی طور پر مقامات کے انتہائی امتزاج اور دو اہم آبناؤں ہرمز اور باب المندب کی دہلیز پر واقع ہے۔بڑے تجارتی راستے جنہیں بین الاقوامی تجارت میں شہ رگ کی سی حیثیت حاصل ہے اسی خطے سے ہو کر گزرتے ہیں۔نئی صدی کے آغاز سے خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ نائن الیون کے بعد متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے مختلف ممالک کے قومی مفادات کو زمین سے سمندر کی طرف منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں حلیفوں اور حریفوں کے درمیان نئے اتحاد کاظہور ہوا۔جب دنیا نے کچھ معاملات میں اپنے نظریات سے آگے بڑھ کر سوچنا شروع کیا تو ان کا نقطہ نظر تیزی سے تبدیل ہونے لگا،تب سے یہ خطہ جغرافیائی سیاست کے مراحل سے گزر رہا ہے جس میں ریاستوں کے مابین ہر طرح کا تبادلہ خیال شامل ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس میں کثیر الملکی قوتیں اپنے فوجی اور بحری انتظامات کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں جیسا کہ ڈیاگو گارسیا میں امریکہ کی موجودگی،جہاں سے وہ خطے میں ہونے والی تجارتی ومواصلاتی نقل و حرکت اور مشرقی بحرِ ہند میں پیپلز لیبریشن آرمی، نیوی کا بغور جائزہ لے رہا ہے جبکہ بحرین میں امریکہ کی موجودگی مغربی بحرِ ہند میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ اسی طرح کی سرگرمیوں اور حکمتِ عملی کی چالوں نے بحر ہند کے پانیوں پر تسلط کے نئے سانچے تشکیل دیے۔اس کے مطابق امریکہ کی ہند بحرالکاہل (Indo-pacific) سے متعلق حکمتِ عملی مشرقی بحرا لکاہل سے لے کر مغربی بحرہند تک دونوں سمندروں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ساگرمالا جیسے منصوبوں کی شکل میں بھارتی سمندری تعمیرات اور ہندوستان کی ہند بحر الکاہل کی حکمتِ عملی جس میں مغربی بحر الکاہل سے مغربی بحر ہند تک کے خطے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چین کادو سمندروں سے متعلق نظریہ جو اسے بحر الکاہل اور بحرِ ہند کے پاردوسرے سمندروں تک بھی اپنے نقطہ نظر کو وسعت دینے کا جواز فراہم کرتا ہے۔اس کا اہم بیلٹ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبہ جس میں متعدد ریاستوں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، معاشی و توانائی کے روابط اور دیگر امداد کے ذریعے اپنے نقطہ نظر سے متفق کرنا شامل ہے۔ ستمبر 2019 میں جرمنی، یورپی یونین کے صدر اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت نے بھارت کی طرف واضح جھکاؤ کے ساتھ ہند بحر الکاہل میں چائنہ کی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں اپنی حکمتِ عملی کے خدوخال واضح کیے۔ جسے ہند بحرالکاہل میں برلن کی رسائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور یہ موجودہ جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایسی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے جو ریاستوں کے مابین ہم آہنگی، اعتماد اور خوشحالی کو فروغ دیتے ہوئے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر پائیدار امن کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔ پاک بحریہ کی جانب سے بحری مشق امن 21 کا اہتمام اسی سلسلے کا تسلسل ہے۔ جس حفاظتی طریقہ کار کے تحت اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے وہ باہمی تعاون سے ملنے والی سیکیورٹی ہے جو بین الاقوامی امن کے سلسلے میں مدد گار ثابت ہو گی۔اس مشق میں40 سے زائد ممالک قزاقی مخالف آپریشنز، انسداد دہشت گردی کی مشقوں، پیشہ ورانہ صلاحیتوں، سمندری بارودی سرنگوں کی صفائی،خفیہ معلومات کے تبادلے اور دیگر متعلقہ روایتی اور غیر روایتی سمندری خطرات کا جواب دینے جیسی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔ اس مشق میں حصہ لینے کے لئے بڑی تعداد میں ممالک کی شرکت اوربالخصوص روسی کی نمائندگی نے سلامتی سے متعلق باہمی تعاون کے خدو خال کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مفادات کے تصادم کے باوجود روس نیٹو ممالک کے ساتھ پاکستان کے پرچم تلے اس مشق میں حصہ لے رہا ہے جو مغربی بحرِ ہند میں سلامتی، امن اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ایک اور یادگار اور بے مثال کارنامے کی عکاسی کرتا ہے۔اس مشق سے عالمی سطح پر اقوام عالم کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، پاکستان کے سمندری علاقوں میں سیکیورٹی کو یقینی بنانے اور پر امن مستحکم سمندری ماحول کو فروغ دینے کے پختہ عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ پاکستان بحریہ مشق کا انعقاد انتہائی منظم طریقے سے کر رہی ہے جو خطے میں اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک مؤثرقدم ہے۔اس طرح کے اقدامات ریاستوں کو ایک نقطہ نظر پر متفق کر کے مطلوبہ سطح تک صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرنے اورمشترکہ اعتماد سازی سے فائدہ اٹھانے کے مواقعے بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا ٹاسک فورس 150، ٹاسک فورس151 اور دوسرے علاقائی میری ٹائم سیکیورٹی گشت جیسی مہمات کی قیادت کرتے ہوئے اپنی بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کاثبوت دیا ہے جو خطے کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی حکمتِ عملی اور پاک بحریہ کی عمدہ کارکردگی کا منہ بولتاثبوت ہے۔ بحری دائرہ اختیار میں بہترین حکمت عملی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی توسیع میں مدد فراہم کر رہی ہے۔پاکستان ملتِ اسلامیہ کامضبوط حصار اور مشق امن 21 کا علمبردار ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی امن اور باہمی اتحاد کا شدت سے خواہاں ہے۔