امریکی سینیٹ نے سابق صدر کے مواخذے کی دستاویز قبول کرکے ٹرائل کے لیے 9 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے جس کے بعد ٹرمپ وہ واحد صدر بن گئے جنہیں دوسری مرتبہ اس قسم کے ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ اس ٹرائل کا ردِ عمل بھی آئے گا لیکن ان کے خیال میں اسے ہونا ہوگا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے زیادہ برے اثرات ہوں گے۔ تاہم امریکی صدر کے پرزور اتحادی اور جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لِنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ 'آئینی دائرہ اختیار' کی کمی کے باعث مواخذے کے اقدام کو 'مسترد' کیا جانا چاہیے تھا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ان معاملات پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں آیا اور وہ ٹرائل کے لیے اپنی قانونی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں اور جنوبی کیرولینا کے ایک وکیل بوچ بوورز ان کی دفاعی ٹیم کی سربراہی کرسکتے ہیں۔ سینیٹ میں مواخذے کا آرٹیکل پہنچانے والے 9 اراکین کانگریس میں سے ایک رکن ٹیڈ لیو نے اس کارروائی کو 'تاریخی' قرار دیا، ان تمام 9 اراکین کو ایوان کے منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ سینیٹ میں ٹرائل کے دوران ایوان کی نمائندگی کریں گے۔