سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو بغاوت کے لیے اکسانے اور ہجوم کو کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کی ترغیب دینے کے الزامات کی وجہ سے امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی ان کے خلاف دستور کے مطابق کارروائی کے حق میں مطلوبہ ووٹوں کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔ ایسے میں امریکا کا قانون/دستور کیا کہتا ہے کیونکہ ٹرمپ کے خلاف دوسری مرتبہ کارروائی کے لیے اقدام کیا جا رہا ہے؟
چھ جنوری کو اس وقت کے صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملہ کرتے ہوئے وہاں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کے عمل میں رکاوٹ ڈالی تھی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم ٹھہرانے کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ 100 ارکان پر مشتمل سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50،50 ارکان ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے 17 سینیٹرز ایسے ہیں جو ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب کہ بعض ری پبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے صدارتی دفتر میں نہ ہونے کے بعد مواخذے کی کارروائی شروع کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹ میں اکثریتی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے لیڈر چک شومر نے ری پبلکن سینیٹرز کے تحفظات کے جواب میں پیر کو کہا کہ ہر امریکی تاریخ کے اس خوف ناک باب کو چھپانا چاہتا ہے لیکن اسے چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کا واحد راستہ حقیقی احتساب ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ منطق کہ سینیٹ سابقہ حکام کا ٹرائل نہیں کر سکتی تو یہ آئینی طور پر کسی بھی صدر کو جیل سے آزادی کا پروانہ دینے کے مترادف ہے۔
اگر صدر ٹرمپ سینیٹ سے مجرم قرار پاتے ہیں تو وہ دوبارہ کوئی وفاقی عہدہ نہیں سنبھال سکیں گے۔