وفاقی وزیر فواد چودھری کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی میں پیشی کی مخالفت کر دی ہے۔ یوں حکومت کی دو نمایاں شخصیات پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے لگاتے وقت آنے پر پارلیمنٹ کی بالادستی کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے سابق چیف جسٹس کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے طلبی کی مخالفت کر دی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے چیئرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف کو خط لکھ کر کہا ہے کہ معاملے کو ایجنڈے سے نکالیں تو کمیٹی کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ثاقب نثار کا شریف فیملی کیخلاف احکامات دینے کا معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا چیئرمین قائمہ کمیٹی اطلاعات عدالت میں زیر التوا معاملے کو زیر بحث نہ لائے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتی رہتی ہیں لیکن جب کبھی وقت آتا ہے تو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ آج پاکستان تحریک انصاف ثاقب چیف جسٹس کی قائمہ کمیٹی میں پیشی کی مخالفت کر رہی ہے، نون لیگ بلانا چاہتی ہے لیکن یہ منظر بدل بھی سکتا ہے اگر نون لیگ کو ضرورت پڑے وہ حکومت میں ہو اور کسی ثاقب چیف جسٹس یا کسی ایسی ہی اور شخصیت کو پارلیمنٹ میں بلانے کی بات ہو اور نون لیگ کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو تو یقینی طور پر وہ بھی مخالفت کریں گے۔ یہ سب مفادات کا کھیل ہے یہاں صرف اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے آئین و قانون کو استعمال کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اصولی طور پر تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے ہیں تو پھر اس بالادستی کو عملی جامہ پہنانے اور اسے یقینی بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے چاہییں۔ یہ عمل کسی جماعت کے حکومت یا اپوزیشن میں ہونے مشروط نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس معاملے میں تمام جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اتفاق رائے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہیے۔ سابق چیف جسٹس ہوں یا کوئی اور ہو اگر پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے تو پھر کسی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو آئین و قانون کے تابع ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ایسی کارروائیوں کے پیچھے ذاتی رنجش اور اختلافات نہیں ہونے چاہییں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی صرف سیاسی حریفوں کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا اطلاق سب پر یکساں اور بلاامتیاز ہونا چاہیے۔
دوسری طرف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بھی لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پی ڈی ایم نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہی لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ چند روز سے یہ باتیں سننے میں آ رہی تھیں کہ لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل ہو سکتی ہے لیکن اب پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ لانگ مارچ طے شدہ تاریخ تئیس مارچ کو ہی ہو گا۔ اسلام آباد میں پی ڈی ایم سیاسی قائدین کے قیام اور دھرنے کی تفصیلات لانگ مارچ کے قریب سامنے لائی جائیں گی۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سمیت سٹیئرنگ کمیٹی کی سفارشات پر بھی غور کیا گیا۔ سٹیرنگ کمیٹی میں یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں شرکت کرنا چاہتی ہے تو اجازت دے دی جائے گی۔ ابھی مارچ اور بالخصوص تئیس مارچ میں خاصا وقت باقی ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے لیکن یہ سیاسی اتحاد سے زیادہ ضرورت مندوں کا اتحاد ہے کیونکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ایک جگہ جمع ہونے کے باوجود حکومت کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ میں اور سڑکوں پر کہیں بھی متحدہ اپوزیشن حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کر سکی۔ ایسی قانون سازی جہاں عام آدمی کو نقصان پہنچ سکتا تھا منظور ہوتے رہے اپوزیشن کچھ نہ کر سکی۔ماضی میں بھی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے عوامی مسائل کو نظر انداز کیا یہی وجہ تھی کہ اتحاد خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکا۔ حکومت گرانے کے دعوے کرنے والے خود ہی تقسیم ہو گئے وجہ صرف اور صرف سیاسی مفادات اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرنا تھا۔ اب حکومت کے لیے بھی حالات بدلے ہیں، عوامی سطح پر مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ مہنگائی نے حکومتی دعوؤں کو بے نقاب کیا ہے۔ عام آدمی کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل سیاسی جماعتیں حکومت مخالف جذبات کو کیسے ابھارتے ہیں۔ کیا پی ڈی ایم کی یہ کوشش تحریکِ انصاف کے لیے مسائل پیدا کرے گی یا پھر تئیس مارچ کے لانگ مارچ سے پہلے ہی بہت کچھ بدل چکا ہو گا۔
سوال پاکستان میں وزیراعظم سے ہو یا پھر امریکہ میں صدر سے جہاں بھی ہو ردعمل شدید ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی حکمرانوں کو صحافیوں کے سوالات سے مسئلہ ہوتا ہے جو زیادہ بولتا یا سوال کرتا ہے اسے مشکلات کا ہی سامنا رہتا ہے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں سوال کرنے والوں کو ہی ایک سوال بنا دیا جاتا ہے اور لوگ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ شدید ردعمل کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اب تو جو بائیڈن نے بھی صحافیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے انہیں بھی مہنگائی کے سوالات پسند نہیں ہیں۔
واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے اختتام پر صحافی نے امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا مہنگائی میں اضافہ وسط مدتی انتخابات میں سیاسی بوجھ کا باعث ہو گا۔ جواب میں صدر جو بائیڈن نے طنزیہ انداز میں کہا کہ نہیں یہ بہت بڑا اثاثہ ہے۔ زیادہ مہنگائی ہوگی اور ساتھ ہی صحافی کو گالی بھی دے ڈالی۔ یوں جو بائیڈن نے ثابت کیا ہے کہ اصل مسئلہ سوال سے ہے شکر ہے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مہنگائی مصنوعی ہے اور نہ ہی ان کے ترجمانوں کی ٹیم نے باجماعت صدر کی حمایت میں زمین آسمان ایک کیا ہمارے حکمرانوں کو بہرحال دلیل ضرور ملی ہے کہ دیکھو امریکہ بھی مہنگائی سے محفوظ نہیں ہے۔بہرحال جو بائیڈن بھی خو ش رہیں اگر وہ بھی مہنگائی نہیں روک سکتے تو ہمارے مشیران کی خدمات حاصل کریں وہ مہنگائی کے مسئلے کو غلط انداز میں پیش کرنے کی ذمہ داری بہت اچھے انداز میں نبھا سکتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی بالادستی، لانگ مارچ اور جو بائیڈن کا غصہ!!!!
Jan 26, 2022