صدارتی نظام: محکوم و مغلو ب صدائیں

آئینِ پاکستان جمہوری اور پارلیمانی نظام پر مبنی ہے ، ملک میں غیر سیاسی افراد کی ’’ صدارتی نظام کیلئے ‘‘ محکوم و مغلوب صدائیں ہیں،یہ صدا کار کون سے صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں ، آمرانہ صدارتی نظام یا جمہوری صدارتی نظام اور اگر جمہوری صدارتی نظام چاہتے ہیں تو کیا جمہوری صدارتی نظام کے لئے ٖ امریکہ کی تقلید چاہتے ہیں یا فرانس کی ،صدارتی نظام کی صدائیں دینے والوں کو علم بھی نہیں کہ یہ کیسا ہے اور کیا ہے،بس سارے اختیار ات فردِ واحد کو ملیں گے تو ہی کاروبار ِ زندگی چلے گی یعنی ’’ نو من تیل ہو گا تو ہی رادھا ناچے گی۔ جمہوری و پارلیمانی نظام کو الزام دینے والے استحصالی قوتوںکے ایجنٹ حقائق کو مسخ کر رہے ہیں، حقائق یہ ہیں کہ ملک پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی بر طانوی حکومت کے ایجنٹوں نے اپنے آپ کو برطانیہ کا جانشین سمجھ لیا ،ملک کے نظام کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، غیر جمہوری طریقوں کے ذریعے جمہوری حکومتوں کے خلا ف ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو 4 سال اور 63 دن کے بعد گولی مار دی ، خواجہ ناظم الدین کو ایک سال 182 دن بعد رخصت کر دیا ، محمد علی بوگرہ دو سال 117 دن بعد فارغ کر دیئے گئے،چوہدری محمد علی ایک سال 31 دن،بنگال کی مضبوط سیاسی شخصیت اور تحریک ِ پاکستان کے قائد حسن شہید سہروردی سے اسکندر مرزا نے زبر دستی ایک سال  35 دن بعد استعفیٰ لیا ، ملکی حالات کے پیش ِ نظر ابراہیم اسماعیل چندریگر کو لا کر 60 دن میں فارغ کر دیا ، ملک فیروز خان نون نے آتے ہی مسقط کے حکمرانوں سے ایک معاہدے کے تحت گوادر کی بند گاہ کو حاصل کر کے پاکستان میں شامل کیا ،ملک فیروز خان نون نے ملک کے پہلے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی تو انہیں صرف 295 دنوں بعد جنرل ایوب خان نے دستور کو پامال کرتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ کر دیا ، مقبول عوامی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کو تین سال  325 دن بعد نو ستاروں کی تحریک منظم کر کے رخصت کر دیا ،محمد خان جونیجو کو تین سال  66 دن بعد اقتدار سے بر طرف کیا ، جب کہ وہ بیرون ملک سرکاری دورے پر تھے ، بینظیر بھٹو کی حکومت ایک سال 247 دن کے بعد ختم کر دی گئی، میاں نواز شریف کی حکومت دو سال 254 دن بعد بر خواست کر دی گئی ، دوسری بار عوامی اعتماد کے ساتھ بینظیر بھٹو حکومت میں آئیں تو انہیں پھرتین سال17 دن بعد حکومت سے الگ کر دیا گیا، نواز شریف دوتہائی اکثریت کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہیں دو سال  237 دن بعد اقتدار سے باہر کر دیا ، میر ظفر اللہ جمالی ایک سال 216 دن ، چوہدری شجاعت حسین 57دن، بر آمد شدہ وزیر اعظم شوکت عزیزتین سال 79 دن یہ تینوں وزراء اعظم جنرل پرویز مشرف کے لائے ہوئے تھے۔ سید یوسف رضا گیلانی چار سال 86 دن بعد عدالتی کاروائی کے تحت رخصت ہوئے ، انکی جگہ راجہ پرویز اشرف صرف 275 دن حکومت میں رہے، تیسری بار نواز شریف اقتدار میں لائے گئے ،اور چار سال 53 دن بعد عدالتی شکنجے میں پھنسا کر ساری عمر کیلئے نا اہل کر دیا گیا ان کی بقایا مدت شاہد خاقان عباسی نے 303 دنوں میں مکمل کی ، یہ حقائق پر مبنی کھلواڑ پارلیمانی نظام کے ساتھ ہوا ، پارلیمانی نظام کے ناقدین اور صدارتی نظام کے مغلوب طالبین ملک کے صدارتی اداور کا تاریخی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ملک نے کس قدر نقصان کا سامنا کیا ، اسکندر مرزا تقریباً تین سال صدر رہے ، جنرل ایوب خان دس سال مسند ِ صدارت پر براجماں رہے ایوب خان مشرقی اور مغربی پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے میں ناکام ہوئے تو اقتدار یحییٰ خان کو منتقل کر دیا، اسی دوران مشرقی پاکستان کا سانحہ سقوط ِ ڈھاکہ ہوا اور ملک دو لخت ہوا۔جنرل ضیاء الحق 10 سال 10 ماہ تک صدارت کرتے رہے انہیں کے دورِ اقتدار میں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کی وجہ سے ملکی سطح پر دہشت گردی اور ڈرگ مافیا نے تباہی پھیلائی جسے کنٹرول کرنے میں وہ ناکام رہے سیاسی کارکنوں اورصحافیوں کو کوڑے مارے گئے، ضیاء الحق 16 ، ستمبر 1978 ء سے 17 ، اگست، 1988 ء تک ملک کے مطلق العنان رہے اسی دوران بھارت نے سیاچین پر 1984ء میں قبضہ کیا تھا ، غلام اسحاق خان پانچ سال گیارہ ماہ اقتدار میں رہے، جنرل پرویز مشرف تقریباً9 سال تک مسندِ صدارت پر رہے، انکے صدارتی دور میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، محسن ِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات اور ان کی نظر بندی ، عافیہ صدیقی سمیت متعدد پاکستانیوں کی امریکہ کو حوالگی، بلوچستان آپریشن ، اکبر بگتی کی شہادت ، پاک سر زمین پر امریکی ڈرائون حملے اور حساس ایئر بیس امریکہ کے حوالے کرنے کے متنازع اقدامات ہیں۔
تاریخ گواہ ہے اجتماعی عمل کو انفرادی طور پر کرنے کی انسانی خواہش نے معاشرے میں بگاڑاور ریاست میں ریشہ دوانائیوں کو جنم دیا ، اجتماعی عمل کو ذاتی خواہش کے مطابق انفرادی طور پر کرنے کا بہانہ قرار دے کر عمل چھوڑ دینا اور ملکی نظام کو عذر بنانا کاہلوں کا شیوہ ہے، اہلیت کی کمی کو نظام اور آئین پاکستان کو دوش دینا ظاہر کرتا ہے کہ ’’ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ‘‘

ای پیپر دی نیشن