چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
جمہورہت کی تعریف میں یہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں جمہور کی رائے سے بننے والی حکومت جمہور کے لیے کام کر تی ہے،لیکن بھارت جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کا دعویدارہے وہاں سب سے زیادہ عوام کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں،بھارت میں اقلیتیں خاص طور پر مسلمان سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں،مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے مظلوم کشمیر عوام پر گزشتہ سات دیائیوں سے جاری مظالم پوری دنیا کے سامنے ہیں ان مظالم میں لاکھوں کشمیری نوجوانون کو بغیر کسی جرم کے شہد کر دیا گیا،ہزاروں معصوم کشمیری خواتین کی بے حرمتی کی گئی،درجنوں معصوم بچوں تک کو پیلٹ گن سے نشانہ بنا کر زندگی بھر کیلئے بینائی سے محروم کر دیا گیا،لاکھوں گھروں کو جلا ڈال گیا،باغات کاٹے گئے،کشمیری عوام کے املاک کو تباہ کیا گیا،مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ چکی ہے،مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کا تناسب تبدیل کر نے کے لیے ہندو انتہا پسندوں کو کشمیری شہری ظاہر کر نے کے لیے ان کے ڈمسائل بنائے جا رہے ہیں،اگر یہی وہ جمہوریت ہے جس کو بھارت عامی سطح پر فخر سے پیش کر تا ہے تو بھارت کا طرز حکومت کسی بھی برے سے برے آمرانہ نظام کی عملی تصویر ہے،مقبوضو کشمیر کی یہ صورتحال بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے، کشمیری عوام بھارت ے نام نہاد یوم جمہوریہ کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج بھارت کا یوم جمہوریہ، یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں،یوم سیاہ منانے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غیرقانونی اور غاصبانہ قبضے کی طرف دلانا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بے گناہ کشمیریوں کی زیر حراست ہلاکتوں اور مسلسل مظالم کی طرف دنیا کی توجہ دلانا بھی ہے۔اس روزبھارت کے غیر قانونی تسلط اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاجاً مکمل ہڑتال کی جاتی ہے،جمہوری نظام کا دعویدار بھارت 7دہائیوں سے کشمیری عوام کے جمہوری حقوق غصب کیے ہوئے ہے،کشمیری عوام کو احتجاج تک کا حق حاصل نہیں ہے، مقبوضہ علاقے بالخصوص کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں کو روکنے کے لیے قابض بھارتی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی جاتی ہے پوری وادی میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوج تعینات ہے جو دنیا کے کسی بھی علاقے میں آبادی کے تناسب سے تعینات سب سے زیادہ فوج ہے،پورے مقبوضہ علاقے میں جگہ جگہ قائم کی گئی چوکیوں پر لوگوں سے ناروا سلوک اختیار کیا جا نا معمول کی بات ہے، ہندوستان نے کشمیریوں سے آزادی، جینے حتی کہ سانس لینے کا حق بھی چھین رکھا ہے اور حریت قیادت کو جیل میں بند رکھا ہے۔ یاسین ملک سمیت زیادہ تر حریت قیادت اور ہزاروں نوجوان جیلوں میں ہیں،تدفین کے لیے شہیدوں کی لاشیں نہیں دی جاتیں اور سوال یہ ہے کہ کیا کہ ہندوستانیو کیا کشمیری انسان نہیں ہیں۔بھارتی فوجیوں کو مظلوم کشمیری عوام کو قتل کر نے پر بھی انعام وکرام سے نوازا جاتا ہے بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلندکر نے والوں کو مارنے پر سرکاری فورسز کو 27 ہزار ڈالر ادا کیے جاتے ہیں جہاں بھارتی حکومت کے خلاف شرپسندی کے الزام میں 1989 سے اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔سرکاری فورسز کو نقد انعام فوج کے بجائے حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے۔انسانی حقوق کے کارکن خبردار کرتے ہیں کہ مالی انعام معصوم لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کا سبب بن رہا ہے اورنقد انعام کیی لالچ میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں بے گناہ شہریوں کو مار دیا جاتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر 1990 سے’’ملٹری ایمرجنری‘‘ کے کالے قانون کے زیر اثر ہے جس کے تحت فوجیوں کو مشتبہ حریت پسندوں کو گولی مارنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔اس قانون کے تحت فوجیوں کو ان جرائم پر سول عدالتوں میں کارروائی سے بھی استثنیٰ حاصل ہے تاہم حکومت کی جانب سے اجازت دیے گئے مخصوص کیسز کی سماعت ہوسکتی ہے۔
مودی سرکار کی جانب سے بھارتی آئین کے تحت کشمیریوں کو دیا گیا تشخص چھین لیا گیا ہے، کشمیری سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے بنیادی آئینی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی ادارے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بھارتی مظالم کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پورے بھارت میں آج اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں، وہاں مسلمان، بنگالی، دلت کوئی محفوظ نہیں اور جمہوریت کے بجائے کالے قوانین کا نفاذ ہو رہا ہے۔ بھارت میں سیکولرازم دب چکا ہے اور ہندوتوا سوچ کا قبضہ ہے ہندو انتہا پسند جہاں اور جب چاہتے ہیں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانو ں کے حقوق غصب کرتے ہیں کوئی قانون ان کا راستہ روکنے والا نہیں، بھارت کے رویے سے اس کے سارے پڑوسی نالاں ہیں اور نیپال، چین اور بنگلہ دیش سب کے ساتھ بھارت کا رویہ بدلا ہوا ہے جبکہ بھارت اسی رویے کے باعث تیزی سے اپنے پڑوسی ممالک سے دور ہو رہا ہے۔ 26جنوری 1950ئ کو بھارتی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کی جگہ اپنا آئین نافذ کیا۔ اس دن کو بعدازاں ’’یوم جمہوریہ‘‘ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ بھار ت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔بھارت کے اسی آئین تلے مقبوضہ کشمیر میں 1952ئ میں نام نہاد انتخابات کروائے گئے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ کشمیری عوام نے مرکزی دھارے میں شمولیت کی خاطر نہ صرف بخوشی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا بلکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ووٹ بھی ڈالے۔ وقتی طور پر بھارت یہ جھوٹ بولنے میں کامیاب ہوگیا لیکن جلد ہی اسے اس وقت سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جب نہتے کشمیریوں نے بھارت کے خلاف بندوق اٹھالی۔ کشمیری عوام انتخابات کے خلاف تھے۔ ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ کشمیر میں استصواب ِ رائے کروایا جائے تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا ازخود فیصلہ کرسکیں۔ استصواب ِ رائے کے نتائج کا بھارت کو بخوبی علم تھا، اس لیے اْس نے ایسا اقدام اٹھانے سے گریز کیا۔ جب کبھی عالمی برادری کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ تو بھارت ہمیشہ ایک ہی جملہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتا رہا کہ ’’استصوابِ رائے کیلئے حالات سازگار نہیں۔‘‘5اگست 2019ئ کے ہندوستانی اقدام اور کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے تحریک آزادیِ کشمیر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرتے ہوئے اسے 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا جس کا اطلاق گزشتہ سال 31 اکتوبر سے ہوگیا تھا۔