اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) تھانہ کوہسار کے ہائی پروفائل نور مقدم قتل کیس کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس نے طویل اجلاس منعقد کیا جس میں قتل کی اس لرزہ خیز واردات کے حوالے سے اطلاعات اور اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تفتیشی افسر نے بریفنگ میں بتایا گیا کہ دوران جرح تفتیشی افسر سے جو جو سوالات کئے گئے اس کیلئے ضروری تھا کہ ان کے جوابات ہاں یا نہ میں ہوں۔ بہت مختصر ہوں اور تفصیلات میں جانے سے گریز کیا جائے۔ کیس کی تمام کارروائی سے متعلق بیشتر ابہام اور اعتراضات پیدا ہو گئے ہیں ان سب کو دور کرنا نہایت ضروری ہے۔ تفتیشی افسر سے دوران جرح ملزم کے وکیل نے مندرجہ ذیل سوالات کئے۔ تفتیشی افسر سے پوچھا گیا کہ کیا ملزم کی پینٹ پر خون پایا گیا؟ جس کا جواب انہوں نے نہیں میں دیا۔ پاکستان فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملزم کی شرٹ پر ملزم اور مقتولہ کا ڈی این اے پایا گیا کیونکہ ملزم نے نکر پہنا تھا۔ اس پر کوئی خون نہ تھا البتہ اس کی شرٹ پر مقتولہ کا خون موجود تھا۔ پولیس کے مطابق دوسرا اعتراض جو دوران جرح اٹھایا گیا وہ یہ تھا کہ کیا چاقو پر ملزم کے فنگر پرنٹ پائے گئے یا نہیں؟ جس کا جواب انہوں نے نہیں میں دیا۔ پولیس کے مطابق اس وقوعہ کے بعد ملزم نے کافی شہادتیں ضائع کرنے کی کوشش کی لیکن اعلیٰ پولیس افسروں کی زیر نگرانی تمام تر دستیاب شواہد کو نیشنل فارنزک سائنس ایجنسی کے ماہرین نے ٹیکنیکل اور سائنسی طریقے سے اکٹھا کیا اور پارسل بنوائے تاکہ کوئی شہادت ضائع نہ ہو۔ پولیس کے مطابقPFSAرپورٹ مندرجہ ذیل حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔DNAرپورٹ کے مطابق مقتولہ کو قتل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ مقتولہ نے قتل سے قبل اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ملزم کا DNA اس کی جلد کی صورت میں مقتولہ کے ناخنوں میں پایا گیا جو بطور شہادت قبضے میں لیا گیا تھا۔ ملزم کی قمیض پر مقتولہ کا خون موجود تھا اور اس کی تصدیق DNAرپورٹ نے بھی کی۔ وقوعے سے سوئس چاقو بھی قبضے میں لیا گیا جس سے مقتولہ کو قتل کیا گیا تھا۔DNAرپورٹ کے مطابق اس چاقو کے بلیڈ اور ہینڈ ل پر مقتولہ کا خون پایا گیا۔ جائے وقوعہ سے آہنی مکہ بھی برآمد ہوا۔ رپورٹ کے مطابق آہنی مکہ پر لگا خون مقتولہ کا تھا۔ آئی جی اسلام آباد نے تمام افسروں کو ہدایت کی کہ اس کیس کو بہترین طریقے سے فالو کیا جائے اور تمام تر کارروائی سے باقاعدگی سے انہیں مطلع کیا جائے۔