’’قلم کو توڑ دیتے ہیں‘‘

وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کیلئے صحافت جیسے کٹھن شعبے میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نجی ٹی وی چینل کو بطور کرائم رپورٹر جوائن کیا اور اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے لگا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ 24جنوری کو اسے رزق حلال کی تلاش سے ’’آزاد‘‘ کر دیا جائے گا۔ حسنین شاہ لاہور پریس کلب کے حالیہ انتخابات میں گورننگ باڈی کا امیدوار بھی تھامگر چند ووٹ سے شکست کھا گیا۔ گزشتہ روز وہ پریس کلب سے نکلا اور منزل مقصود پر جانے کیلئے اپنی گاڑی میں بیٹھا تو موٹرسائیکل پر سوا ر دو’’نامعلوم‘‘ افراد نے اس کا وجود گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ قاتلوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ انہوں نے حسنین شاہ کو پریس کلب کے سامنے قتل کیا۔  آئی جی پنجاب نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات اور ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن تا حال پولیس کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ ابتائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حسنین شاہ کو شملہ پہاڑی کے قریب نشانہ بنایا گیا حسنین شاہ کو دو موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں ماریں ،حسنین شاہ کے سینے اور پیٹ میں 10 سے زائد گولیوں کے نشان تھے حسنین شاہ کو پیشہ ور قاتل کی مدد سے نشانہ گیا،حملہ آور کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش جاری ہے ۔رپورٹ کے مطابق حسنین شاہ کے موبائل کی سی ڈی آر بھی نکلوا لی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ بھی’’ دیرینہ دشمنی ‘‘کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔حسنین شاہ کے بیہمانہ قتل سے ملک بھر کی صحافتی برادری اور اہل قلم دل گرفتہ ہیں۔ معاملہ جو بھی ہے اس کی تفصیلات تحقیقات مکمل ہونے کے بعد منظر عام پر آئیں گی لیکن ابتدائی طور پر ایسا ہی لگتا ہے کہ حسنین شاہ کو بھی جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے ’’بدلائو‘‘ کا کہا گیا ہوگا ۔ اس موقع پر برادرم شعیب الطاف کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ 
بدل تو سکتا ہوں کچھ عادتیں تری خاطر
مگر میں سارے کا سار ا بدل نہیں سکتایہ پاکستان میں کسی صحافی کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں۔ حسنین شاہ سے پہلے بھی  کئی صحافیوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا اور اس بارے میں ہمیشہ کی طرح الزام’’نامعلوم‘‘ افرادکو ہی دیا گیا ہے ۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30 سال میں دنیا بھر میں قتل ہونے والے صحافیوں کے لحاظ سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔  عراق، میکسیکو اور فلپائن بتدریج پہلے ، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں جن میں اس عرصے کے دوران 138سے زائد صحافیوں کو قتل کیا گیا۔فریڈم نیٹ ورک پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی جانچ کرتا ہے، اس کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سا ل کے دوران 148 ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف 148 واقعات میں سے 51 اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔اس دوران سات صحافی قتل ہوئے سات پر قاتلانہ حملے ہوئے، پانچ کو اغوا کیا گیا اور 25 گرفتار ہوئے، 15 کو زدو کوب کیا گیا جبکہ 27 پر مقدمات درج کئے گئے۔زیادہ تر  واقعات ٹیلی ویڑن کے صحافیوں کے خلاف ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے بعد پرنٹ میڈیا دوسرے نمبر پر تھا جبکہ آن لائن صحافیوں کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کا نمبر تیسرا ہے۔ ریڈیو کے صحافیوں کا کوئی کیس درج نہیں ہوا۔
حسنین شاہ کے قتل کے خلاف لاہور پریس کلب کے عہدیداران نے کیس کی ہائی پروفائل بنیادوں پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔  بحیثیت عامل صحافی میری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بالخصوص وزیر داخلہ شیخ رشید سے اپیل ہے کہ وہ حسنین شاہ کے قتل کی تحقیقات ہنگامی بنیادوں پر کروائیں اور ان کے بچوں کو یتیم کرنے والے مجرمان کو قرار واقعی اور فوری سزا دلوائیں کیونکہ یہ ریاست کے چوتھے ستون کو غیر مستحکم کرنے کی سازشی کڑی ہے۔ آخر میں شہید ہونے والے صحافی کے نام اپنی غزل کا ایک شعر
اگر کڑوا لگے سچ تو ہمارے شہر کے جابر
قلم کو توڑ دیتے ہیں، صحافی مار دیتے ہیں

ای پیپر دی نیشن