حیدرآباد(بیورو رپورٹ) سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا ہے کہ ملک میں ہر سال 5ہزار بچے تھیلیسیمیا کا شکارہورہے ہیں۔ سندھ،خیبرپختونخوا و بلوچستان اسمبلیوں نے شادی سے پہلے اسکریننگ کے لیے قانون سازی کی منظوری دے دی ہے،لیکن اس پر عمل درآمد ایک بڑا مسئلہ ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام وسندھ سرتیون ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر اے ایم شیخ آڈیٹوریم ہال میں طلبا کیلئے تھیلیسیمیا کے بارے میں آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے تعاون و شعوری کوششوں سے تھیلیسیمیا جیسی بیماری میں کمی آئی ہے، ٹیسٹ کرانا لازمی ہے۔سماجی رہنماء کاشف اقبال تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کراچی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ ان کا ادارہ ملک کی 200 یونیورسٹیوں و کالجوں میں ہزاروں طلباء کے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرواچکے ہیں۔
یہ بیماری بہت تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس بیماری سے بچائو و متاثرہ بچوں و نوجوانوں کی صحت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور بہت سے نوجوان انجینئر و ڈاکٹر اس بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود عملی زندگی میں متحرک ہیں۔سماجی رہنما زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ سندھ میں غربت کی وجہ سے عام لوگ اس قسم کی بیماریوں سے لاعلم ہیں، خاص طور پر تھر و دیگر علاقوں میں صحت کی قریبی سہولیات و آگاہی پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے ایسی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، سابق رکن اسمبلی رشیدہ پنہور نے کہا کہ صوبے کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے سماجی و معاشی طبقے سے ہے،جنہیں گھریلو ضروریات و معاشی مسائل کی وجہ سے تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج و انتظام کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، سندھ سرتیون ویلفیئر آرگنائزیشن کی صدر شاہانہ بھرگڑی نے کہا سندھ سمیت پاکستان میں اس بیماری سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر کوئی مناسب روک تھام کا پروگرام نہیں ہے۔تاہم صوبائی سطح پر کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، اس موقع پر ڈائریکٹر یونیورسٹی ایڈوانسمینٹ اینڈ فنانشل اسسٹنس ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر، زرتاج میمن و شبیلہ تالپور نے خطاب کیا۔تقریب کے دوران طلباء کے تھیلیسیمیا سمیت مختلف خون کے ٹیسٹ کے لیے کیمپ کا بھی انعقاد کیا گیا۔