ہم ’’سٹیٹس کو‘‘کوپروان چڑھانے والے لکھاری

ڈاکٹر طاہر بھلر
 قارئین کرام اردو لکھاریوں پر یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں،ہمارے ہاں اردو لکھاریوں اور صحافیوں کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کے سیدھی بات نہیں کہنی، بات کو زبان و بیان اورعلم کلام کے تمام میسر آلات جیسے اشارہ ، کنایہ، تشبیہ، استعارہ، طنز اور تاویل سے زیادہ سے زیادہ مستفید کرنا ہوتا  ہے تاکہ الفاظ کے بے دریغ استعمال استعمال سے صفحات کا پیٹ بھی بھر جائے اور کسی کے کچھ پلے بھی نہ پڑے۔ بھرتی کے مترادف الفاظ کے ساتھ مرصع اور مقفی جملوں سے ایسی بھول بھلیاں تعمیر کی جائیں کہ آپ اپنے پیٹرن سے حاصل شدہ مراعات، خلعت اورانعامات سے محروم نہ رہیں۔ تحریر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والاہتھیار عمل دو گرفتگی ہے جسے انگریزی میں ،،،امبی ویلنس،،کہا جاتا ہے،،۔بیس جنوری کے ڈان میں اشرف جہاںگیر قاضی کا کالم’’پاکستان،اسلام ، اور ایجوکیشن‘‘ چھپا ہے۔ اس کالم میں زاں پال سارت، گرامچی، چامسکی اور ولیئم ھمبولٹ کے حوالے دئے گئے ہیں۔ اپنے کالم میں وہ جرات مندانہ طریقے سے ملٹری کو ڈیفیکٹو طاقت اور تمام فیصلہ کن اختیارات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اور یہ تشخیص بھی کرتے ہیںکہ خاکی اشرافیہ کے انہی اقدامات کی وجہ سے آج ہر شعبے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔،،اسی تحریر میں یہ لکھاری نما مفکر اسلام کی تاریخ سے رجوع کر تے ہوئے مذہب کا تڑکا لگاتے پائے جاتے ہیں۔ ،،مذہبی فکر کا حامل دانشورعقل ودانش کی جتنی مر ضی لمبی سیڑھی  پر نہ چڑھ جائے پائوں اس کے مولوی کی فکر پھنسے رہتے ہیں۔ سر سید، عبدالا چکڑالوی،غلام احمد پرویز اور اب غامدی جتنا چاہیں مذہب کو عقلی پیمانوں پر کسنے کی کوشش کریں، ایک پوائنٹ آتا ہے جب انہیں مولوی کو مرشد تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس زمرے میں ہماری سول سروس  کے نگینے بھی آ چکے ہیںاسی میں لکھاری طنزیہ طور پرمارلن مانرو  ایک ہالی ووڈ ایکٹریس کے بیان کہ،،، سویٹی اگر تم نے دو چہرے ہی رکھنے ہیں تو کم از کم ایک تو خوبصورت بنا لو،،کا حوالا دیتے ہوئے خصوصی اردو لکھاریوں، صحافیوں ، دانشوروں کو منافقت ، بزدلی ، موقع پرستی پر سر زنش کرتا ہے۔یہ ایک خیال ، رائے ، طنز تنقید یا تازیانہ کہہ لیں لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ جب تک کسی تصویر کے دونوں رخ نہ دیکھے جائیں، منطقی نتیجہ تک پہنچا نہیں جا سکتا۔ ہر لکھنے والا یقینی طور پر مکھی پر مکھی مارنے والا تو نہیں ہوتا ، بلکہ اکثر تو نیب یا خاکی وردی کو بھی اپنے تئیں نہیں بخشتے  یہ الگ بات ان کا خمیازہ ان کو بھگتنا ضرور پڑ جاتا ہے۔ ہر ایک کی زبان پر ارشد شریف کا نام آج کیوں ہے ۔کیونکہ عوام کے سامنے تو چند سیاستدان ہی ہیں جو اس ملک سے اربوں کے اثاثے لوٹ لے گئے ہیں باقی تو تمام مقدس گائیں ہیں۔ صرف ایڈمرل منصور کا آگسٹا آبدورز میں کمیشن لینے میں ہی ذکر کیوں۔ میں اگر غلط نہیں تو ایک کرکٹ میچ کی کمنٹری میں جنرل کیانی کی کسی پراپرٹی کا آسٹریلیا میں ذکر خود سن کر حیرانی ہوئی تھی۔ لیکن میرے قارئین کہ یہ بھی پتہ ہونا چائیے کہ باہربیٹھ کر سمندر کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہو سکتا، اسی طری ہر صحافی یا لکھاری کو ایک ارتقائی عمل کی چھلنی سے گزرنا ہوتا ہے تب کہیں جا کر وہ سٹیٹس کو پر اتھارٹی کی طرح لکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت اچھی خبروں میں سے اچھی خبر تیس ٹریلین مکعب فٹ گیس کے ذخائر پاکستان میں دریافت ہوئے ہیں، جس کو سوئی کے بعد پاکستان میں بڑا ذخیرہ خیال کیا جا رہا ہے ۔ دنیا میں گیس کی قیمت اٹھارہ ڈالر جبکہ ہمارے ہاں اس کی قیمت چار ڈالر ہے۔ ان ذخائر سے ہم اپنے بڑے قرضے اتار سکیں گے۔ ریکو ڈیک میں ہمیں چار عشاریہ آٹھ ارب ڈالر بھی ملنے ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر ہم اپنے ا سی پیک ہی کو ترقی دیں تو ہم بھی یورپی ملک لکسمبرگ جو صرف راہداری سے اپنی معیشت چلاتا ہے، تو ہم بہت زیادہ کمائی کر سکتے ہیں۔ آج یوکرائن ایک نیوکلیر فلیش پوانٹ ہے جس میں کسی وقت بھی عالمی جنگ لگ سکتی ہے۔ ڈنمارک میں راشن بندی شروع ہوچکی ہے۔ یورپ سوئی کے نوک پر آ چکا ہے ۔ جرمنی گیس کے ذخائر کو ترس رہا ہے۔ دنیا میں اگلے تین مہینوں می ہنگامی حالات کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کیا ان حالات میں ہم اپنے ملک کی اچھی خبروں کا ذکر نہ کریں یا کوئی ہر جائی اس بھی سٹیٹس کو قرار دے کر ہمیں دو گرفتگی ، یا ڈبل فیسڈ ، دوغلاکہے گا۔ بیشک ہم اغلاط کا مننبع ہوں گے لیکن ہر لکھاری کو ضمیر کی آواز بھی سننا ہوتی ہے اور معروضی حالات کو دیکھ کر لکھنے والا ہر گز ضروری نہیں کہ سٹیٹس کو کا حامی ہو۔

ای پیپر دی نیشن