نجیب الغفور خان ( جموں و کشمیر لبریشن کمیشن)
26جنوری بھارت کے یوم جمہوریہ کو دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔جس کا مقصد دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور بھارت کے تسلط کی طرف مبذول کرواناہوتا ہے۔اس دن مختلف پروگرامات، ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے کشمیری عوام عالمی برادری کو یہ باور کرواتے ہیں کہ بھارت جو دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے وہ درحقیقت جمہوریت کے نام پر سیاہ دھبہ ہے۔1950ء میں اس ی روز بھارت کا جو آئین نافذ العمل ہوا تھااس کی آڑ میںوہ جمہوریت کا مصنوعی لبادہ اوڑھ کر ناصرف دنیا کو دھوکا دے رہا ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بھارت کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں غیر جمہوری طرز اپنائے ہوئے ہے۔ جہاں معصوم کشمیریوں پر رائج ہندوستانی کالے قوانین ٍمکمل طور پر جمہوریت کے متضاد ہیں۔ایک ایسا ملک جس نے جموں و کشمیر پرکشمیریوں کی خواہشات کے خلاف قبضہ کر رکھا ہے ۔ کشمیرپر قابض انتظامیہ اور فوج کے ذریعے آج کے دن یہاںبھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ سے قبل حفاظتی اقدامات مزید سخت کر دیئے جاتے ہیں۔ بھارتی فورسز نے کئی روز سے سرینگر اور دیگر علاقوں میں گاڑیوں اور مسافروں کی تلاشی کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے جس سے بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار کشمیریوں کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی ہے۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی قابض بھارتی انتظامیہ نے 26جنوری سے کئی روز قبل مقبوضہ وادی میں سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں۔ سرینگر سمیت وادی کے دیگر قصبوں میں بھارتی فورسز نے جگہ جگہ ناکے لگائے ہیں جہاں گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کو روک کر مسافروں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اورانکی جامہ تلاشی لی جارہی ہے۔ بھارتی فورسز نے سرینگر کے لالچوک، ایم اے روڑ، قمر واری، عید گاہ، سکہ ڈافر، کاکہ سرائے، بڈشاہ چوک، پارمپورہ، خانیار، نوہٹہ، گوجوارہ حول، صراف کدل، بہوری کدل، راجوری کدل وغیرہ میں مزید چیک پوسٹیں قائم کی ہیں جن پر تعینات بھارتی فورسز اہلکارگاڑیوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔ موٹر سائیکلوںپر او ر گاڑیوں میں سوار افراد کے شناختی کارڈچیک کیے جارہے ہیں۔ بعض ناکوں پر سراغ راساں کتوں کی مد د سے بھی گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔ وادی کے مختلف اضلاع کو سرینگر سے ملانے والی سڑکوں پر بھی ناکے لگائے گئے ہیں۔ 5اگست 2019ء کے بعدبھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کا بڑے پیمانے پر قتل کیا اور اس کے بعدسے مسلسل غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے، کہیں جعلی پولیس مقابلے ہیں تو کہیں نام نہاد سرچ آپریشن کئے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیاں اختیار کرنے پربھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت کو کڑی تنقیدکانشانہ بنایاہے۔تنظیم نے اپنی عالمی رپورٹ 2022ء میں کہاکہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے بعض رہنمائوں کی طرف سے مسلمانوں کو بدنا م کرنے اور بی جے پی کے حامیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں پولیس کی ناکامی سے ہندوقوم پرست گروپوں کو مسلمانوںپرحملوں کے لئے شہ ملتی ہے۔بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں وکشمیرسے متعلق ہیومن رائٹس واچ نے کہاکہ تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کاسلسلہ جاری ہے اور انسانی حقوق کمیشن نے گزشتہ سال کے پہلے نوماہ کے دوران پولیس کی حراست میں ایک سوتینتالیس اورماورائے عدالت ایک سوچارہلاکتوں کااندراج کیا۔بھارتی فوج نے سال 2022 کے دوران مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی ظالمانہ کارروائیوں میں214 بے گناہ کشمیری شہید کر دئیے۔ شہید ہونے والے 214 افراد میں 57 کو فرضی مقابلوں اور حراست میں مارا گیا، دوران حراست شہید ہونے والوں میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماالطاف احمد شاہ بھی شامل ہیں۔ سال 2022 کے دوران مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال بارے کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے دسمبر2022 میں راجوری قصبے میں دو ہندو مزدوروں کو ایک فرضی تصادم میں بھی ہلاک کیا تھا۔سال 2022 کے دوران نہتے شہریوں کے بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل کے نتیجے میںمیں 13 خواتین بیوہ اور 35 بچے یتیم ہوئے جبکہ 10 خواتین کو وردی میں ملبوس مردوں کے ہاتھوں بدسلوکی یا بے عزتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فورسز نے اس دوران 44 رہائشی مکانات کو تباہ کیا۔ مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے کم از کم 134 افراد زخمی ہوئے جب کہ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن محمد احسن اونٹو، اے پی ایچ سی کے رہنما مولوی بشیر احمد، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض سمیت 1350 افراد گرفتار ہوئے۔، محمد شریف سرتاج، مولانا مشتاق ویری، مولانا عبدالرحید دادی، مولانا عبدالمجید ڈار، مولانا عبد الوحید کشتواری، طلبا، نوجوان لڑکوں اور خواتین کو فوج اور پولیس نے گھروں پر چھاپوں اور کریک ڈان آپریشن کے دوران گرفتار کیا ۔ ان میں سے کئی کو کالے قوانین، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا۔ بھارتی حکام نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں لوگوں کو 14 مرتبہ نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس کے علاوہ دیگر مذہبی تقریبات جیسے محرم کے جلوس، شب برات، شب قدر اور عید میلاد النبی کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد رہی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد السلام بھارتی جیلوں میں قید ہیں ۔ کم وبیش 4 ہزار سے زائد افراد پابند سلاسل ہیں ۔
مقبوضہ وادی میں آئے دن ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں کا سلسلہ انسانی حقوق کی اتنی واضح خلاف ورزی ہے کہ اس پر کسی طریقے سے پردہ ڈالنا ممکن نہیں لیکن اقوام متحدہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کرانے کے بارے میں اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے سے گریزاں ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اتنے معتبر ادارے کی پالیسی میں ایسا شرمناک تضاد کیوں ہے؟‘‘۔ہر سال بھارت اپنے یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتا ہے۔ کشمیری عوام بھارتی مفاد یافتہ اعلیٰ طبقے کی جمہوریت کو جو فسطائیت کا روپ دھار چکی ہے کو مسترد کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر جابرانہ تسلط برقرار رکھنے کیلئے بھارت نے فوجی طاقت کا سہارا لیاہے جبکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو وہاں صرف اتنی ہی فوج رکھنے کا حق حاصل ہے، جو قیام امن کے لیے نا گزیر ہو، لیکن آج یہ تعداد 10 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میںہزاروںنئی قبروں کا اضافہ ہوا ہے، جن پر شہداء کے نام اور پتے درج ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنی رپورٹس میںواضع طور پر ہندوستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ٹھہرایا ہے ۔ یو این ایچ آر کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی حاصل نہیںاس لئے حکومت کو آزادی رائے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ۔ان تمام تر اقدامات کے باوجودنہ توکسی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کا بھارت پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے اداروں کا ۔اب یہ اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل پر ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور کشمیریوں کو ان کا پیدا ئشی حق خودارادیت دلائیں۔ جموں و کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں کے سوشل میڈیا پیجز مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھرپور انداز میں اجاگرکر رہے ہیں اور بھارت کا غیر جمہوری چہرہ دنیا میں بے نقاب کر رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جمہوریت کے دعویدار بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر اکثر پا بندی لگا رکھی ہے، ایسے حالات میں جمہوریت کی دھجیاں بکھیرنے والے بھارت کا یوم جمہوریہ منانا سمجھ سے بلا تر ہے۔درحقیقت بھارت جمہوریت کے نام پر سیاہ دھبہ ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛