امریکی اسلحہ کی فروخت میں سال 2022 میں 49 فیصد تک پہنچ گئی۔ مجموعی طور پر پچھلے سال 205،6 ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ فروخت کیا گیا۔ یہ بات دفتر خارجہ نے بدھ کے روز بتائی ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق انڈونیشیا کو 'ایف 15 آئی ڈی' جنگی طیارے 13،9 ارب ڈالر میں فروخت کیے گئے۔ یونان کو 6،9 ارب ڈالر مالیت کے کثیر المقاصد بحری جنگی جہاز دیے گئے۔ اسی طرح پولینڈ کو 6 ارب ڈالر کی مالیت کے 'ایم آئی اے 2 ابرام ٹینک 'فروخت کیے گئے۔ جنرل ڈائنامکس کارپوریشن کے تیار کردہ یہ ابرام ٹینک اور لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کے ایف 15 بنانے والی لاک ہیڈ ہی بحری جنگی جہاز بناتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے لیے امریکہ سے یہ اسلحہ خریدنے کے دو بڑے طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کوئی حکومت براہ راست امریکی کمپنیوں سے تجارتی ڈیل کی بات کرے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کوئی حکومت اپنے ملک میں امریکی سفارتخانے سے رابطہ کرے۔ اس دوسرے طریقے کو عام طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں طریقوں کے بعد حتمی منظوری امریکی حکومت کو ہی دینا ہوتی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے مطابق سال 2022 کے دوران کئی بیرونی حکومتوں نے امریکی کمپنیوں سے براہ راست ڈیل کی۔ اس طرح ان براہ راست ڈیلزکے نتیجے میں کمپنیوں کی فروخ 48،6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 153،7 ارب ڈالر تک چلی گئی۔ اس کے مقابلے میں امریکی حکومت کے توسط سے ہونے والے اسلحہ خریداری کے معاہدوں میں بھی اضافہ ہوا اور یہ 2021 کے دوران امریکہ سے خرید کردہ اسلحہ مالیت سے 34،8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 51،9 ارب ڈالر کی مالیت تک چلے گئے۔ دفتر خارجہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 کے دوران 138 ارب ڈالر کا سودا فروخت ہوا، جبکہ سال 2022 کے دوران اسلحہ فروخت میں امریکی کامیابی بڑھی اور 138ارب ڈالر کے مقابلے میں 205،6 ارب ڈالر تک چلی گئی۔تاہم دفتر خارجہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ سال 2022 کے دوران اسلحہ فروخت کرنے ممیں زیادہ کن ملکوں اور خطوں میں کامیابی ملی۔ نہ اس پس منظر میں روس یوکرین جنگ سے یورپ کی بدلی ہوئی صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن امریکہ کے لیے خوش آئند بات ہے کہ یہ غیر معمولی اضافہ عالمی کساد بازاری کے ماحول کے باوجود ہوا ہے۔