’ایک حصہ ہی تمام اکائیوں کو متحد رکھ سکے گا‘

گو جلسہ ۔ جلوس ہورہے ہیں ۔ ریلیاں بھی جاری ہیں ۔ مزے کی بات کہ بیان بازی کا مقابلہ ہمیشہ کی طرح عروج پر مگر ’’الیکشن‘‘ کا جو ماحول دیکھ رکھا ہے ویسا منظر نامہ جم نہیں پا رہا ۔ الیکشن کے بعد ’’پی ڈی ایم2‘‘ لمحہ موجود کا پاپولرووٹ لینے ولے بھی فائدہ اُٹھانے کے بعد ’’آزاد‘‘ نہیں رہیں گے ۔ نیا حکومتی نقشہ جیسا بھی ہو عوام کی بہتری ۔ مفاد ۔ تحفظ ترجیح اول رہا تو بہترحالات ہونگے ۔ تو حالیہ سیاسی مخالفانہ لہجے ۔تندو تیز باتیں سب سکرپٹ کا حصہ ہیں ؟؟ معلوم ۔ سُنائی تو یہی ہو رہا ہے حقیقی میچ کی صورت میں ووٹ ’’مخالف پارٹی‘‘ کو یکمشت مل جاتے ۔ تقسیم اور اپنے حصہ کا ووٹ بس ۔ کھیل اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
’’چُناؤ‘‘ کے اعلان سے قبل اور بعد ۔ مختلف فورمز ۔ مواقعوں پر تجزیہ پیش کر چکی ہوں کہ سیاستدان جس طرح کے حالات پر ملک و قوم کو لے آئے ہیں بہت مشکل ہے کہ مدت پوری ہو حتیٰ کہ ’’2,3سال‘‘ بھی بہت لمبی مدت ہے۔ نہ اہلیت ہے نہ علم کہ پیش گوئی قرار دے سکیں پر خیال ہے کہ سال ۔ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال (اگلا سیاسی منظر نامہ جاننے کے خواہاں قارئین کچھ ماہ پہلے کے شائع شدہ آرٹیکلز پڑھ لیں ) اس لیے متواتر لکھتی آرہی ہوں کہ تمام پارلیمانی نمائیندگی رکھنے والی جماعتوں پر مشتمل ’’قومی حکومت‘‘ ہماری اب مجبوری بن چکی ہے اس راہ سے فرار مسائل بڑھائے گا کم نہیں کرے گا اسلئیے تمام ’’سیاسی اکابرین‘‘ ذاتی اناؤں ۔ انتقام ۔ بدلہ کی مروجہ روش کو بھول کر ایک حصہ بن جائیں ۔ ’’ایک حصہ‘‘ ہی تمام اکائیوں کو متحد رکھ سکے گا اور ترقی ۔ خوشحالی کا سفر بھی آسان بنادے گا۔ 
تعلیم یافتہ طبقہ کا تو کہہ سکتے ہیں کہ دماغ ۔ دل پڑھائی نے روشن کر دیا ۔ گھر سے باہر نکلنے اور لوگوں سے ملنے جلنے سے دماغی وسعت بڑھ گئی اسلئیے ایسا طبقہ کہیں بھی اور ہر جگہ اپنی علمی برتری کی دھاک بٹھانے کی اہلیت رکھتا ہے اور کِسی بھی موضوع پر چاہے سائنسی نکتہ ہے یا معاشی و سیاسی عنوانا ت ۔ بہت سلجھی ۔ نپی تلی رائے دینے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے مگر لمحۃ موجود میں کِسی بھی عوامی سروے کے نتائج سننے بیٹھیں تو دماغ کی بند پرتیں کُھل جاتی ہیںَ عوامی شعور ایلیٹ کلاس سے لیکر غریب ترین طبقات تک اُس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ عوامی تاثرات سُنتے ہوئے عام آدمی بھی مقبول ترین چینل کے مشہور اینکر سے کم معلوم نہیں ہوگا۔ برسوں پہلے سیاسی جماعتوں سے لوگوں کی وابستگی کا لیول یہ نہیں تھا جو آج ہے پہلے لوگ زندہ باد کے نعرے لگانے میں زیادہ توانائی کا مظاہرہ کرتے تھے اب لوگ اپنی محبوب شخصیات کے لیے جینے مرنے کی اعلانیہ باتیں کرتے ہیں اور باتیں بھی ایسی کہ بس ’’نام‘‘ پر ہی خون نچھاور کرنے کو تیار ہیں بس حکم چاہیے۔ 
دعوی ہے کہ بس ایک مرتبہ موقع دیدیں ۔ ملک کی تقدیر بدل دینگے 40,35سالوں سے ’’اقتدار ی کرسی‘‘ کے مزے اُٹھانے والے ’’ایک شہر‘‘ کی تقدید نہیں بدل سکے وہ ملک کی تقدیر مزید ’’5سالوں‘‘ میں کہاں بدل سکتے ہیں؟ بھرپور لفاظی کا دور چل رہا ہے۔ وہی پُرانا انداز۔ وہی پرانے نعرے ۔ وہی پرانے وعدے ۔ حیرت ہے ’’طبقہ سیاست‘‘ تک عوام کی سوچ ۔ بلند سطح فکری باتیں ۔ کُھلی ڈلی زبان میں برملا بنا کسی خوف کے اظہار پہنچ نہیں رہا ۔ آغاز شعور سے جہاں سُن اور دیکھ رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہے وہاں کہنے والوں کے بینک اکاؤنٹس میں اضافہ ہوتا سُنا اور دیکھا ۔ یہ بھی دیکھا کہ پسماندہ علاقوں سے محل نما گھروں میں منتقلی ہوئی ۔ لگژری محلات کی تعداد ۔ دولت میں نمو ہوئی تنزلی نہیں ۔ خوشحالی اتنی بڑھی کہ 80,90سال کے بزرگوںکے چہروں کی تازگی ۔ سفیدی ۔ چمک پر نظر نہیں ٹھہرتی مبادا نظر نہ لگ جائے ۔ ترقی ۔ چمک صرف ’’ووٹ کنندگان‘‘ کی ماند پڑی ۔ ختم ہوئی کیا یہ سب سے بڑا المیہ نہیں ؟؟
’’300یونٹ‘‘۔ چاند کو فتح کرنا شاید آسان ہے مگر ؟؟ یہاں تو ’’ایک یونٹ‘‘ بجلی کی مفت فراہمی ممکن نہیں ۔ واقعی ’’چیپ ٹاک‘‘ ہے نگران کا بیان سہی پر ہے تو ’’وزیر‘‘۔ تمام زمینی حقائق سے آگاہ۔ کیا ممکن ہے کہ تقریباً ’’3کروڑ‘‘ صارفین کو مفت بجلی کا وعدہ شرمندہ تعبیر ہو جائے ۔ اگر کوئی شخص مجھ سے سوال کرے تو میرا جواب ہاں میں ہوگا کیونکہ کچھ بھی دشوار نہیں۔ اگر دعوے کرنے والے بطور ایک مخلص پاکستانی کے عمل کرنے کا ارادہ کر لیں ۔ ایک شخص 70سال کی عمر میں بھی اُس تھپڑ یا گُھوری کو کبھی نہیں بُھولتا جو کِسی دانستہ غلطی پر پچپن یا جوانی میں اُس کو پڑا تھا تو اب ؟ 76سالوں ۔ 40سالوں کی لُوٹ مار ۔ دھوکہ بازی ۔ وعدہ خلافیوں کو قوم کیسے بھول جائے گی ؟؟ قارئین جو ’’لوگ‘‘ اپنے ذہن کا عوام کے متعلق نقشہ نہیں بدل سکے وہ اپنے شہر ۔ ملک کا نقشہ کیسے بدل سکتے ہیں ؟؟آصف زرداری صدر مملک بن جائیں ۔ ’’مریم‘‘ وزیر اعلیٰ پنجاب ۔ شہباز شریف وزیراعظم ۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ جھگڑا کِس چیز کا ہے صرف ایک نکتہ کا کہ بس اب اکٹھے ہو جائیں ۔ لڑائیاں بند کر دیں ۔ عوام کے لیے سوچیں ۔ عوام کے لیے کام کریں۔ اب ملک کو ٹِکرز کی زینت بنانے والی دلکش گفتگو نہیں ۔ عملی اقدامات درکار ہیں اب نہیں تو پھر کب ؟؟
بطور ایک درمند پاکستانی میری تجویز ہے (بارہا لکھ چکی ہوں) کہ صحافت سے لیکر حکومتی اداروں تک سب کو سیاست سے پاک ہونا چاہیے۔ جس کی جو پسند ہے وہ ’’ووٹ‘‘ کی صورت میں اپنی خواہش کی تکمیل کرے۔ اداروں کی سربراہی کو کبھی بھی متنازفیہ بنانے کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں ۔ حکومتی ذِمہ داریوں کو مکمل غیر جانبداری اور پروفیشنل انداز میں نبھانے کی حوصلہ افزائی کلیدی توجہ کا نوٹ ہونا چاہیے ۔ سرکاری اداروں ۔ محکموں کو نوجوان طبقہ کے ذریعہ چلانے کی مشق کا آغاز کر دیں۔ توسیع در توسیع ہماری انتہائی ذہین کلاس کو بدظن کر رہی ہے نتائج حالیہ برسوں میں بیرون ملک جانے والے لوگوں ۔ بچوں کی تعداد پڑھ لیں ۔ ’’تعلیم ۔ ملازمت۔آسان کاروباری مواقع‘‘ 3چیزوں کی گارنٹی نہیں عملی کام کر دیں تو بقیہ مسائل ازخود حل ہو جائیں گے۔ نہ وسائل کی کمی ہے نہ افرادی قوت کی۔ اہلیت ۔ صلاحیت پر کچھ سائے ہیں کمی صرف عمل کی ہے بس اب عمل کا آغاز ہونا چاہیے ۔ قوم کو ذرا سی دلچسپی نہیں نہ الیکشن کی نہ نئی حکومت میں۔ وہ اپنے مسائل کا فوری ۔ دیرپا حل چاہتے ہیں کیا مشکل ہے اِس میں ؟؟

ای پیپر دی نیشن