ایک نایاب ستارہ: نجم الاصغر

میں اپنی گول بتی والی انیس سو بیاسی ماڈل کی جاپانی یاماہا موٹرسائیکل پر، شہر کے گنجان آباد علاقے کی بھول بھلیوں جیسی گلیوں کے موڑ مڑتا ہوا اپنے عہد کے اس منفرد سخن ور سے ملنے اس کے گھر پہنچتا تھا۔ان کی اور میری عمر میں ایک واضح تفاوت موجود تھی۔اس کے باوجود ہم آپس میں پرانے دوستوں کی طرح بے تکلف گفتگو کرتے تھے۔ان کے لہجے میں خودپسندی کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی تلخی بھی درآئی تھی۔وہ شاعری میں اپنے سوا کسی دوسرے کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔میرے ساتھ ان کا معاملہ کچھ الگ تھا کہ میں ان کے مزاج سے بخوبی آگاہ تھا۔میں شروع ہی میں ان کی نظم یا غزل کے کسی شعر کی تعریف کرتا۔شاہیا صاحب! آپ کی شاعری کے کیاکہنے۔دراصل ادبی دنیا  ابھی تک آپ کے مقام اور مرتبے سے آشنا ہی نہیں ہوسکی۔دیکھیے فلاں نظم میں آپ نے کتنے عام سے خیال کو فکر کی بلندی پرپہنچادیا ہے۔میری باتیں سن کر ان کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت بھری چمک آجاتی۔وہ قہقہہ لگا کر کہتے ’’ہاں جی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔میں لفظوں کے معنوی دروبست کوسمجھتا ہوں‘‘۔کبھی اپنے مخصوص انداز میں کہتے،’’ افتخار! تمھیں معلوم نہیں۔ جن دنوں میں ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ عمرہ کرنے گیا۔ عمرے کے دوران میںپہلی دفعہ جب میری کعبہ شریف پرنظر پڑی تو میں نے اللہ رب العزت سے شاعری میں برکت کی دعا مانگی تھی۔یہ اسی کاثمر ہے۔ایک  روزان سے ملنے گیا تو مرزا غالب کا دیوان سامنے رکھ کر اس کی غلطیاں نکال رہے تھے۔ ’’دیکھو بھئی! لوگوں نے خواہ مخواہ غالب کواتنی اہمیت دے رکھی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا ، لیکن آپ تو نظم کے شاعر ہیں۔جدید اردو نظم کے شعرا کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔شاہیاصاحب! آپ کے خیال میں نظم کا اہم ترین شاعر کون ہے؟۔مجیدامجد؟’’ نہیں یار !وہ تو بہت کمزور شاعر ہے‘‘۔۔۔۔تو پھر میراجی؟’’یار! اس کو تو مصرع بنانے کاڈھب بھی نہیں آتا‘‘۔اچھا تو پھر منیرنیازی کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے دیجیے؟’’وہ تو شکل ہی سے میانوالی کا ٹرک ڈرائیور لگتاہے‘‘۔ الماری کے شیلف میں رکھی ’’کلیات منیرنیازی‘‘ نکال کر دکھائی۔’’افتخار! یہ دیکھو، شکل سے ہی میانوالی کا ٹرک ڈرائیور لگتاہے‘‘۔لیکن شاہیاصاحب !منیرنیازی تو ہوشیار پور کا نیازی ہے۔اور چہرے مہرے سے بڑا خوب صورت انسان ہے۔’’نہیں نہیں یار!  وہ تمھارے ساہیوال کاہے، اس لیے اس کی زیادہ طرف داری کر رہے ہو۔میں نہیں مانتا‘‘۔ اچھا تو پھر ن۔م۔ راشد؟۔ ’’ہاں اس کی کچھ نظمیں اچھی ہیں۔ البتہ علامہ اقبال کو واقعی ایک عہدساز کہا جاسکتا ہے‘‘۔ اس طرح کے مکالمے ہوتے اور ہم آخر کار اپنا سامنہ لے کر رہ جاتے۔شہر کے ایک چائے خانے میں رات کو شہر کے چند شاعر ادیب مل بیٹھتے تھے۔ ارشد ملتانی، مبارک مجوکا، فرخ درانی، اصغرعلی شاہ، جاویداختر بھٹی، احمدخان درانی، شناور اسحاق، محمدمختار علی،قاضی عابد اور مشتاق کھوکھراس محفل کا مستقل حصہ تھے۔ کبھی کبھار اے بی اشرف، ممتازاطہر،سلیم قیصر، ظفرسپل اور کچھ دیگر لوگ بھی شریک محفل ہوجاتے۔ نجم الاصغر شاہیا بھی بالعموم ان محفلوں میں موجود ہوتے تھے۔ماحول میں ایک خاص قسم کی وضعداری تھی۔ان دنوں چائے کی پیالی بھی تریاق کا کام دیتی تھی۔جب بھی کوئی علمی بحث چھڑتی توکسی بزرگ کی طرف رجوع کیاجاتا اور باتوں ہی باتوں میں اس کا حل تلاش کرلیاجاتا۔نجم الاصغرشاہیا کی بحث کاانداز سب سے نرالا تھا۔وہ بقول شاعر’’ اک واری جد شروع ہوجاوے گل فیر ایویں مکدی نئیں‘‘ کے قائل تھے۔شعر میں کسی ترکیب کے استعمال کی بات ہوتی تو دوسرے روز لغات وقاموس اور شعرا کے دواوین بطور سند لاکر میز پر پٹخ دیتے۔کبھی ناراض ہوکر دوستوں کا بائیکاٹ کردیتے۔ لیکن چندروز بعد پھر ویسے کے ویسے معصوم اوربے تکلف دوست۔قہقہے لگا رہے ہیں۔محبت میںطرح طرح کے جملے سر کررہے ہیں۔آج کے کالم یہ اتنی لمبی تمہید ایک ایسے بزرگ دوست کے لیے باندھی گئی ہے جس کو سوچیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔نجم الاصغر شاہیا اردو نظم اور غزل کے باکمال شاعر تھے۔ا ن کے بزرگوں کاتعلق اٹک سے تھا،وہاں سے انھوں نے ہجرت کرکے جھنگ کو اپنی سکونت بنایا اور اس کے بعدتیسری ہجرت جھنگ سے ملتان۔نجم الاصغر پاکستان آرمی میں ریفریجریشن کے شعبے میں ملازم تھے۔ عمرکے آخری دنوں میں ان کی رضی الدین رضی، عامر سہیل، قمررضا شہزاد،نوازش علی ندیم، شاکر حسین شاکر۔ کھاریاں میں مقیم امین عاصم سے ان کی گہری دوستی تھی۔
 نجم الاصغرشاہیا اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ کو بڑی محبت سے یاد کرتے تھے۔سال اول میں داخلہ لینے گئے تو ان کے نمبر میرٹ سے کم تھے۔کسی استاد کے پاس گئے اورکہنے لگے میں شاعر ہوں، کیا شاعر ہونے کی وجہ سے بھی مجھے داخلہ نہیں مل سکتا؟۔وہ پروفیسر صاحب انھیں پروفیسر تقی الدین انجم کے پاس لے جا کر گویا ہوئے،’’یہ لڑکا کہتا ہے،میں شاعرہوں، ذرادیکھیں توسہی‘‘۔انھوں نے طرح دی اور شاہیا صاحب نے اس پر دوتین شعر کہہ دئیے،تقی الدین انجم مرحوم نے ان کے شاعر ہونے پر مہر تصدیق لگادی اور انھیں داخلہ مل گیا۔کالج کے دیگر دوستوں میں وہ محمود شام اوررام ریاض کو بہت یادکرتے تھے۔دونوں اردو کے اہم شعرا کی فہرست میں شامل ہیں۔محمود شام کا شمار تو اردو صحافت سے وابستہ اہم لوگوں میں بھی ہوتا ہے۔نجم لاصغرصاحب نے تسلسل سے شاعری کی لیکن ان کی زندگی کا اہم حصہ معاشی مسائل کو حل کرنے کی تگ ودو میں گزر گیا۔ان کی زندگی کا ایک اور صدمہ ایک ہی دن میں دو بڑے بھائیوں کا وفات پاجانا تھا۔ایک بھائی کو دل کا دورہ آیا، دوسرا انھیں ہسپتال لے گیا، جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے،یہ خبر سن کر اس بھائی کوبھی دل کا دورہ پڑا،دونوں کا جنازہ ایک ساتھ اٹھا،اس دن میں نے اپنے بزرگ شاعر دوست کو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا۔شعروسخن توکیا زندگی کے پرشعبے میں شہرت کے حصول کے لیے لابنگ کی جاتی ہے۔لوگ اپنے اعزاز میں شامیں منعقد کرواتے ہیں۔ ناموری حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ان کی اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھنے والی بھی نہیں ہوتیں۔انھیں اس بات کا ادارک نہیں ہوتا کہ شہرت یانیک نامی بھی رزق کی طرح ہے،جتنی تقدیر میں لکھ دی گئی ہو مل کے رہتی ہے۔نجم الاصغر بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔اب ان کا کل کلام’’کلیات نجم الاصغر شاہیا‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔پاکستانی جامعات میں ان پر تحقیق کام ہورہا ہے،ہمارے شاعرکی نیک نامی کا سورج اب افق ِ لحد سے طلوع ہورہا ہے۔
دل توبھرتا نہیں چاہے خزینہ مل جائے
شکرکرتا ہوں اگر نان شبینہ مل جائے
ہجرت آساں نہیں ہوتی ،یہ ضروری تونہیں
ہرمہاجر کو اماں گاہ ِمدینہ مل جائے

ای پیپر دی نیشن