ایک دفعہ پہلے بھی ایک صحافی نگران وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔ نجم سیٹھی نے اگرچہ امور حکومت کو نظام حکومت کے تحت چلنے دیا اور کم سے کم اختیارات استعمال کیے لیکن پینتیس پنکچروں کا الزام پھر بھی ان کے سر پڑا۔ پاکستان میں معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے دیسی بدیسی حکمران بھی آئے۔ ایک آدھ ایسا بھی آیا جس نے پیچھے مڑ کے پوچھا کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا اور محسن نقوی تو سرکتے سرکتے پہنچ ہی ایسی جگہ گئے تھے کہ جہاں سے دھکا دینے کی بجائے ہلکا سا کھنگورا ہی کافی ہوتا ہے۔ محسن نقوی اقتدار کی طوالت کے معاملے میں سب سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئے لیکن شاید یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا بھی ان کو ہی کرنا پڑا ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے پنجاب بھر کے پریس کلبوں کو فنڈز ریلیز کرکے جہاں ان کا حق ادا کیا ہے وہاں چھوٹے اور مرکز سے دور اضلاع کا یہ شکوہ بھی دور کیا ہے کہ جو حکمران بھی آتا ہے تمام ڈویلپمینٹ صرف لاہور تک کے لیے ہی محدود رکھتا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کو یہ بھی احساس ہے کہ وہ آئے تو چند مہینوں کے لیے تھے لیکن بطور نگران وزیر اعلیٰ صوبے کی ذمہ داری ان کو تاریخ کے طویل ترین عرصے کے لیے نبھانی پڑی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر محسن نقوی کو مزید تین سے چار سال کا عرصہ حکومت مل گیا تو صوبائی مرکز سے دور چھوٹے اضلاع کا احساس ِ محرومی ختم نہ بھی ہوا تو کم ضرور ہوجائے گا کیونکہ ان کے اندر کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا جذبہ اور اس پر عمل کرنے کی ہمت ہے ۔ محسن نقوی کا وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری اٹھانا ہرگز ہرگز کوئی آسان اور معمولی ٹاسک نہیں تھا۔ مختلف تجزیوں کے مطابق پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کے گھر پر پولیس کے ذریعے قانونی عملداری کو یقینی بنانا اور سیاسی ورکروں کے گھروں پر مسلسل چھاپے مارنا ، 9 مئی کو جناح ہاوس کی حفاظت میں ناکامی کا جواز فراہم نہ کر پانا۔ سیاسی ورکرز پر سینکڑوں مقدمات قائم کرنا اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لے آنا۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ پولیس حراست میں مرنے والوں کا قانونی دفاع کرنا اور پولیس کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے رہنا ، یہ سب کچھ غیر معمولی حالات میں انتہائی غیر معمولی صورتحال تھی جس سے نبرد آزما ہونے اور کامیابی حاصل کرنے پر نگران حکومت کو جہاں ملک کی 14 سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شاباش اور داد و تحسین ملی وہیں تحریک انصاف کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ مختصر مدت میں مکمل کیے جانے والے ڈویلپمینٹ پراجیکٹس کی کا میابی کا سہرا نگران وزیر اعلیٰ نے ایک اچھے لیڈر کی طرح اپنی ٹیم کے سر باندھا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ میں نے دن رات کام اس لیے کیا کہ میں چاہتا تھا کہ جتنا ممکن ہوسکے کام مکمل کر کے جائوں۔ کسی کو اگر پھر بھی کوئی اعتراض ہے تو اس کا معاملہ اللہ پہ چھوڑتا ہوں۔
نگران وزیر اعلیٰ کی ٹیم میں نگران وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میںر وزیر اعلیٰ کے بعد سب سے زیادہ نمایاں بھی رہے اور متنازعہ بھی۔ اگرچہ عامر میر کا زیادہ وقت وزارت اطلاعات میں اکھاڑ پچھاڑ میں گزرا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے دبائو کا سامنا کرنا بھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ ان کی کارکردگی کے حوالے سے اتنا ہی دیکھ لیا جائے تو وزارت کو مسلسل دبائو میں رکھنے اور وزیر ہونے کا احساس دلانے جیسے معمولی کام کاج کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے کیونکہ اصل کھیل تو اب شروع ہونے والا ہے جو محسن نقوی اور عامر میر کے اعصاب کا امتحان ہوگا۔ آنے والے حالات کے بارے میں تجزیہ کاروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ سیاسی گرما گرمی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ میری اپنی تحقیق اور تجزیے کے مطابق تحریک انصاف کے ورکرز الیکشن کے دوران اپنے غم و غصے کا اظہار اجتماعی طور پر کرسکتے ہیں جو ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیوں کے نکالے جانے کے واضح امکانات ہیں۔
چاہت فتح علی خاں فیم آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان پر بھی ایک دفعہ پھر سخت لمحات آنے والے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بھی پولیس ویلفیئر کے کام کرنے میں ریکارڈ قائم کیے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کی پولیس کو اپنے ہی عوام پر چڑھانے کے احکامات دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ بنیادی طور پر آئی جی پنجاب ایک نیک دل اور خدا ترس انسان ہیں اور انہیں کہیں یہ احساس بھی ہے کہ پولیس والے ہوں یا عوام، ہیں تو دونوں طرف ہی پاکستانی۔ چوٹ پولیس والے کو آئے یا زخم کسی سیاسی ورکر کو لگے خون تو پاکستانی کا ہی بہے گا۔ اسی لیے انہوں نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ پولیس کے جوانوں اور ان کے خاندانوں تک محنت اور فرض شناسی کے ثمرات پہنچائیں۔ آنے والے دنوں میں ممکنہ الیکشن کے حالات انتخابی نشانات سے لیکر کاغذات نامزدگی تک مخدوش ہی مخدوش چلے آ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ اگر صورتحال سیاسی تصادم کی طرف چل پڑی تو یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔ نہ ملک کے لیے ،نہ عوام کے لیے اور نہ حکمرانوں کے لیے۔ اب زیادہ سوچ بچار کرکے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کوئی حکمران ذاتی طور پر بچ بچا کے نکل بھی جائے، تاریخ نسلوں تک اس کا پیچھا کرتی ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی کا گراف بلندی پر ہے۔ نہ عوامی اضطراب میں کمی آئی ہے نہ حالات کی بییقینی کو کچھ فرق پڑا ہے۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ ایک ایک فیکٹر کا تجزیہ اور پیمائش کر کے ہر قدم اٹھایا جائے۔ یہ نہ ہو کہ انقلاب کی وہ تپش اور آرزو جس کا بھرکس عمران خان نے لوگوں کو سڑکوں پر لا لا کے نکال دیا تھا کہیں پھر سے ٹرگر نہ ہوجائے۔ ایسے حالات میں اگر سڑکوں پر نکلے ہوئے عوامکو کوئی واپس لانے والا نہ ہو تو کوئی واپس نہیں آتا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم انجم کا نوجوانوں سے ملنا اس بات کی وضاحت ہے کہ ملک و قوم کے مستقبل کا وطن پر اعتماد اور بھروسہ بحال کیا جائے اور یہ ایک مثبت قدم ہے۔ ساری قوم یہی چاہتی ہے کہ اسے یقین دلایا جائے کہ ملک کو کچھ نہیں ہوگا۔