26جنوری: بھارت کا یومِ ہندوتوا

بھارت نے جمہوریت اور جمہوری اقدار کا قتل توآزادی ملنے کے چند ہفتے بعد ریاست جموں کشمیر میں اپنی فوج اتا ر کر ہی کردیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے تیار نہیں ہونگے۔اس کے باوجود بھارت نے کشمیریوں کے حق ِ خود ارادیت پر شب خون مارکر خطے میں دائمی کشیدگی کی بنیادرکھ دی۔  
بھارت کے اس جارحانہ اقدام کو’’ جمہوریت کی ماں ‘‘برطانیہ کی درپردہ بھرپور حمایت حاصل تھی ورنہ بھارتی فوج کا انگریز سپہ سالارجنرل روبٹر مسلمان ریاست جموں وکشمیر میںوہاں کے عوام کی مرضی کے برخلاف فوج اتارنے کی اجازت ہرگز نہ دیتا۔ جو ہندو راجہ کی مسلمان آبادی پر جبرو تشدد کی پالیسی اور ریاستی پولیس و فوج کے ذریعے نہتے بے گناہ کشمیریوں کی قتل و غارت گری سے بخوبی واقف تھا۔
آج ہم مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ساڑھے تین ماہ میں 25ہزار فلسطینی مردو خواتین اور شیرخوار نونہالوں سمیت 15ہزار سے زیادہ کم عمر بچوں کے قتل عام پر دکھ اور قرب کا اظہار کرتے ہیں لیکن ستمبر 1948 میںبھارتی فوج کے ریاست صدر آباد دکن پر قبضے اور 13ستمبر سے لے کر  18ستمبر تک صرف پانچ روز میں 2لاکھ سے زیادہ شہریوں کے قتل عام کو بھول جاتے ہی۔ جہاں پورے ایک ماہ تک حیدر آباد کی سڑکوں اور گلیوں میں بے یارومددگار پڑی لاشوں کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ 
بھارتی فوج نے اپنے اس بہیمانہ اقدام کو ’’آپریشن پولو‘‘ کا نام دیا تھا۔ برطانوی راج کے دوران آزاد حیثیت کی حامل ریاست حیدر آباد دکن کو پورے برصغیر میں سب سے زیادہ مال دار اور خواندگی کے حوالے سے برصغیر کے دیگر علاقوں و ریاستوں میں سب سے آگے سمجھاجاتا تھا۔ یہاں کے لوگ میل جول میں انتہائی بااخلاق، محنتی اور پُرامن مزاج رکھنے کی شناخت رکھتے تھے۔ برصغیر میں کہیں بھی سیلاب یا زلزلے سے تباہی پھیلتی یا قحط اور کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتا تو پہلی فوری امداد حیدر آباد دکن سے پہنچتی ۔
اس بد نصیب ریاست کا قصور یہ تھا کہ اس نے تاج برطانیہ کی طرف سے قائداعظم محمدعلی جناح کے دوقومی نظریہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد جب تقسیم ہند کا فارمولا طے کیا تواس میں خود مختیار ریاستوں (پرنسلی اسٹیٹس )کو اختیار دیاگیا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کے علاوہ اپنا آزادانہ خود مختیار تشخص برقرار رکھنے میں آزادہیں ۔اس فارمولے پر اعتبار کرتے ہوئے بھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے کی بجائے اپنا آزاد تشخص برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاجوکہ اس کا اصولی حق تھا۔ جسے بھارت میں نام نہاد جمہوریت کی مالا جپنے اور سیکولرازم کے علمبردار ہندو حکمرانوں نے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ 
بھارت سرکار حیدر آباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان پر مسلسل دبائو ڈالتی رہی کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کر لے لیکن میر عثمان علی خان نے ہرطرح کا دبائو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی آزادی برقرار رکھنے کے اٹل فیصلے سے بھارت سرکار کو آگاہ کردیا۔ نظام میر عثمان علی خان کے پاس 22 ہزار کے نفری پر مشتمل فوج ضرور تھی لیکن اس کی  فوج کے پاس نہ تو بھاری ہتھیار تھے نہ ہی وہ بھر پور پیشہ وارانہ تربیت کی حامل تھی۔اس کے باوجود 13 ستمبر 1948 ء کو جب بھارتی فوج ٹینکوں اور توپ خانہ کے ساتھ حیدر آباد میں داخل ہوئی تو ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ ریاستی فوج نے چند گھنٹوں تک بھر پور مزاحمت کی اس کے باوجود وہاں کی عوام پر دہشت بٹھانے اور بھارت کی دیگر ریاستوں کو خوف زدہ کرنے کیلئے حیدر آباد دکن کے عوام کا قتل عام اور وہاں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس میں بھارتی فوج کے ساتھ ریاست تلنگانہ کے مسلح قبائلی بھی شامل تھے۔ اس پوری صورت حال کا شرمناک پہلو حیدر آباد دکن میں لاکھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارت کی درخواست پر عالمی میڈیا میں بلیک آئوٹ تھا جسے تاج برطانیہ نے ممکن بنایا اورآخر کا 65سال بعد جب 2013 ء میں پہلی بار بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں حیدر آباد دکن میں کئے گئے قتل عام پر پردہ اٹھایا تو اس وقت بھی دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور تہذیب یافتہ ممالک میں سے کسی نے بھی بھارت کی مذمت کرنا گوارہ نہیں کی تھی۔
بھارت کی نام نہاد جمہوریت سے صرف وہاںکی مسلمان اقلیت ہی نہیںدیگر اقلیتیں بھی اس عذاب سے دوچار چلی آرہی ہیں۔جون 1984ء میں سکھوں کے امر تسر میں گولڈن ٹیمپل گوردوارے پر بھارتی فوج کے حملے میں ہزاروں سکھ زائرین موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔اس کے رد عمل میں جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو اس کا بدلہ لینے کیلئے پورے بھارت میں جس طرح سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی دنیا میںکہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بھارت کی شمال و جنوب مشرقی ریاستوں میں عیسائیوں پر حملے آئے روز کا معمول ہیں کہیں چرچ جلائے جارہے ہیں تو کہیں گرجا گھروں کے اندر راہبائوں کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وسطی بھارت کی ہندو توا کے زیرکنٹرول ریاستوں میں گزشتہ 10 برسوں میں بھارتی میڈیا کے مطابق 200 سے زیادہ مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے۔
 حال ہی میں اترپردیش کی تاریخی شاہی مسجد کو ہندو شہید کرنے کے بعد وہاں مندر کی تعمیر کا رادہ رکھتے تھے جسے فی الحال اترپردیش کی عدالت نے ناکام بنا دیا ہے۔ مذکورہ مسجد کو گرانے کا عمل اپریل 2023 ء میں شروع کیا گیا تھا جس کے خلاف مسجد کے خطیب نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا لیکن اترپردیش کی ریاستی حکومت بضد ہے کہ شاہی مسجد ہائی وے کی تعمیر میں روکاوٹ ہے۔ اسی طرح ہندوانتہا پسند اترپردیش ہی میں بدایوں شہر کی 800 سال پرانی تاریخی جامع مسجد کو شہید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جامع مسجد’’ بھگوان شیو‘‘ کی جائے پیدائش پر تعمیر شدہ مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی لہذا بابری مسجد کی طرز پر اس کو گرانا ہندوئوںکا مذہبی فریضہ ہے۔ بھارت میں اقلیتوں پر مظالم اور فسادات کی آڑ میں ان کا قتل عام اب بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی سیاسی ضرورت کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
 عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا بین الاقوامی میڈیا سب اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت عملاً ہندو توا ریاست کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کے باوجود اگر بھارت 26 جنوری کا دن یوم جمہوریت کے طور پر مناتا ہے تو جمہوریت کے ساتھ اس سے بڑھ کر مذاق اور کوئی نہیں ہوسکتا۔اس سے بہتر ہے کہ اب بھارت کے حکمران اور عوام 26جنوری کا دن ’’یوم ہندو توا ‘‘کے طور پر منایا کریں ۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...