آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے: بلاول۔
آزاد امیدواروں کی یہ عزت افزائی بتا رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اب اپنی کارکردگی سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں اسی لیے وہ آزاد امیدواروں کی بیساکھیوں کا سہارا ڈھونڈ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول نے تو کھل کر کہہ بھی دیا ہے کہ وہ الیکشن جیت کر آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ اس کا مطلب صاف یہی ہے کہ اب الیکشن کے بعد آزاد امیدواروں کی قیمت لگے گی۔ اسے ہارس ٹریڈنگ کہہ لیں بکرا منڈی، اس میں بہت سے جیتے ہوئے امیدوار من پسند پارٹیوں کا رخ کریں گے۔ وہ ظاہر ہے اپنی شرائط پر ہی سرتسلیم خم کریں گے۔ جس آزاد امیدوار کو جہاں سے مناسب قیمت ملے گی وہ اس طرف رخ کرے گا۔ اب یہ امتحان ہے پی ٹی آئی کے ان سینکڑوں امیدواروں کا جو آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کیا وہ الیکشن کے بعد استقامت دکھا پائیں گے یا اِدھر اْدھر کی ٹکٹ کٹائیں گے۔ اس وقت تو واقعی
ٹکٹ کٹائو لائن بنائو
کنے کنے جانا اے بلو دے گھر
والی صورت حال ہو گی۔ جو جماعت خواہ پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی یا مسلم لیگ نون، زیادہ سے زیادہ یہ آزاد بٹیرے شکار کرے گی، اپنے پھندے میں پھنسائے گی وہ حکومت بنائے گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آزاد امیدوار مل کر اتحاد بنا لیں یوں سیاسی جماعتوں کے رہنما ’’دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے والی کیفیت سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان ہاکی ٹیم تیسری مرتبہ بھی اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہ کر سکی۔
بڑے عرصے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم عالمی مقابلوں میں بہترین کارکردگی دکھا سکی۔ اولمپکس کے کوالیفائی رائونڈ کے مقابلہ میں ٹیم کی اچھی کارکردگی سے سب مطمئن تھے کہ اس بار وہ ضرور ان مقابلوں کے بعد اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر لے گی مگر افسوس وہی دوچار ہاتھ لب بام رہ گیا والی بات ہوئی اور تیسری مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستانی ہاکی ٹیم اولمپکس مقابلوں میں شرکت کے لیے کوالیفائی نہ کر سکی۔ تاہم عالمی ریٹنگ میں پاکستانی ٹیم کی درجہ بندی میں ایک درجے کا اضافہ ہوا۔ مگر اب ہاکی مینجمنٹ والوں اور ٹیم کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔ کوالیفائی نہ کرنے کا الزام مینجمنٹ والوں نے کپتان کے سر ڈال دیا ہے اور اپنی گردن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہاکی ٹیم کے کپتان نے کہا تھا کہ مینجمنٹ والوں سے وہ اور باقی کھلاڑی پریشان تھے جو ان کے کام میں مداخلت کرتے پھرتے تھے۔ اس کے بعد نہایت خاموشی سے انہیں سکواڈ سے نکال دیا گیا ہے اور اگلی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ یوں اختلافات کی وجہ سے ایک اچھے کھلاڑی اور کپتان سے ٹیم کو محروم کر دیا گیا ہے۔ اس کا بْرا اثر باقی کھلاڑیوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ جبھی تو شہباز شریف نے گزشتہ روز طلبہ و طالبات سے باتیں کرتے ہوئے یہی دکھ بیان کیا کہ ہماری ہاکی ٹیم بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی ہم اس میدان میں بھی ہار رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بلاول اور نواز شریف نورا کشتی بند کریں۔ یاسمین راشد۔
اس وقت مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے جس طرح ایک دوسرے پر کاری وار لگا رہے ہیں اس سے ہی الیکشن کی سیاست میں گہما گہمی نظر آ رہی ہے۔ ورنہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ الیکشن مہم چل رہی ہے۔ ہاں اگر کپتان میدان میں ہوتے تو وہ بھی اپنی شعلہ اْگلتی زبان سے افراتفری اور بھاگو دوڑو والا ماحول پیدا کرنے کے لیے تنہا ہی کافی تھے۔ مگر اب وہ اندر ہیں اور جو ان کی پارٹی کے امیدوار باہر ہیں ’’ان میں وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی ‘‘ اب لاہور سے نواز شریف کے مدمقابل پی ٹی آئی کی رہنما یاسمین راشد نے جہاں اپنے حریف کو عبرتناک شکست دینے کی نوید سنائی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلاول زرداری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نواز شریف سے نوراکشتی بند کر دیں اور عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔ کل تک ن لیگ والے ان کے مامے اور چاچے تھے۔ اس کے برعکس بلاول کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون ایک ہی سکے کے دو رْخ ہیں۔
اب یہ دو ہفتے دور کی بات ہے سب پتہ چل جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ فی الحال چند دن یہ الزامات اور جوابی الزامات کی جنگ جاری رہے گی۔ عوام اس سے لطف اٹھائیں گے۔
٭٭٭٭٭
خودکشی کے لیے پل پر چڑھنے والا بریانی کی شرط پر نیچے اتر آیا
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاپی پیٹ انسان سے کیاکچھ کرواتا ہے۔ جس خالی پیٹ کو بھرنے کے لیے یہ 40 سالہ پریشان حال شخص خودکشی کے لیے پل پر چڑھا تھا۔ اسی پیٹ کو بھرنے کے لالچ نے اسے واپس اترنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ کولکتہ میں پیش آیا جب اس شخص کی بیٹی نے ریسکیو والوں کو اطلاع دی کہ اس کا باپ بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر رہا ہے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ریسکیو والوں نے اسے بریانی کھلانے اور ملازمت دینے کی شرط پر واپس نیچے اتارا۔ جب انسان موت پر پیٹ کو ترجیح دیتا ہے تو بھلا بریانی کی پلیٹ قیمے والے نان کے سامنے ا یک ووٹ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ اگر کھانے پینے کے ساتھ نوٹوں کا لمس بھی ہاتھ لگے تو یہ سونے پہ سہاگہ بن جاتا ہے۔ پھر آنکھوں کے سامنے صرف اپنا ممدوح یعنی یہ بندوبست کرنے والا ہی رہ جاتا ہے۔ یاد رکھیں نظریہ، سیاست، شخصیت ، محبت یہ سب پیٹ کے سامنے ہار جاتے ہیں اس جنگ میں جیت ہمیشہ پیٹ کی ہوتی ہے کیوں کہ عقل بھی تب کام کرتی ہے جب پیٹ میں کچھ ہو خالی پیٹ نہ عقل کام کرتی ہے نا دل ناتواں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔شاعر نے بھی کیا خوب ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے…
’’پیٹ میں جب روٹی نہ ہو یعنی پیٹ خالی ہو تو سب باتیں جھوٹی غلط لگتی ہیں‘‘
خالی فلسفے سے تقریروں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اس لئے ہمارے سیاست دان اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ووٹ والے دن یا الیکشن مہم میں دل کھول کر پیسے لگاتے ہیں جو بعد میں وہ بمع سود وصول کرلیتے ہیں۔ مگر الیکشن کے دن ورکروں کارکنوں اور ووٹروں کو خوب خوش کرتے ہیں تاکہ ووٹ ڈالتے وقت انکی آنکھوں پر پرلطف کھانوں کا خمار چڑھا رہے اور اکثر یہ سیاست دان اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ غریبوں کا کیا ہے ان بے چاروں کو ہر وقت روٹی کی ہی پڑی رہتی ہے اس لئے حکمران عوام کو خوشحال نہیں ہونے دیتے کہ پھر ووٹ کون دیگا؟
٭٭٭٭٭