علم تکبر کا پہلا سبب ہے جب عالم خود کو کمال سے آراستہ دیکھتا ہے تو دوسروں کو حیوانات کی طرح سمجھتا ہے۔تکبر کا اس پر غلبہ آجاتا ہے ۔ وہ لوگوں سے مراعات ، خدمت ، تعظیم اور تقدم کی تمنا کرتا ہے ۔ عالم اپنے علم کی وجہ سے مخلوق پر احسان جتلاتا ہے ۔ آخرت میں بھی خود کو ان سے بہتر سمجھتا ہے اور اپنے کام کی وجہ سے جنت کا زیادہ امید وار ہوتا ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : خود کو عظیم سمجھنا علما ء کی آفت ہے۔ایک عالم کو آخرت کے خطرات پیش نظر رکھنے چاہیے ۔ حقیقی علم وہ ہے جو اسے آخرت کے خطرات سے آگاہ کر دے اور صراط مستقیم کی باریکیوں سے واقفیت حاصل کر لے اور ہمیشہ خود کو تکبر سے دور رکھے ۔ عالم اپنی آخرت کے انجام اور اس کے خوف ہ ہراس کی وجہ سے تکبر کے قریب بھی نہ جا ئے گا۔
حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :’’ جتنا علم زیادہ ہوتا ہے اتنا درد فزوں ہوتا ہے ‘‘۔اگر علم زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ تکبر میں بھی اضافہ ہو جائے اس کا مطلب ہے کہ اس نے حقیقی علم ، علم دین نہیں سیکھا۔علم دین سے ہی انسان خود کو پہچان سکتا ہے یہ علم درد و سوز کو بڑھاتا ہے ۔ تکبر میں اضافہ نہیں کرتا ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہو سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماہا ’’ ایک قوم قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ وہ کہیں گے کون ہے جو ہم جیسا قرآن پڑھے ۔ کون ہے جو وہ سب کچھ جانتا ہو جس سے ہم آگاہ ہیں ‘‘پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’ یہ یا تو تم میں سے ہی ہوں گے یا میری امت سے ہی ان کا تعلق ہو گا یہ سب دوزخ کا ایندھن ہوں گے ‘‘۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے’’ متکبرین علما ء میں سے نہ ہونا ورنہ تمہارا علم تمہاری جہالت سے وفا نہ کر سکے گا‘‘ ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تکبر سے بہت زیادہ ہراساںرہتے تھے ۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دفعہ امامت کی ۔ پھر فرمایا ’’ کسی اور کو امام بنا لو ۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ میں تم سے بہتر ہوں ۔‘‘ جب صحابہ کرام تکبر کے خیال سے اتنا خوفزدہ تھے تو دوسروں کو کیوں نہیں ڈرنا چاہیے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرما یا اے صحابہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں تمہارے اعمال کے دسویں حصے پرعمل کرنے والا بھی نجات پا لے گا ۔اس زمانہ میں کم عمل کرنے والے بہت ہیں ۔کیونکہ اب عمل صالح پر کوئی معاون نہیں ۔