چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف تو افواج پاکستان لڑ سکتی ہیں مگر دہشت گردی کیخلاف پوری قوم کا تعاون ضروری ہے۔ گزشتہ روز کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ’’پاکستان نیشنل یوتھ کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ کا مقصد ملک میں بے یقینی‘ افراتفری اور مایوسی پھیلانا ہے۔ سوشل میڈیا کی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق اور مثبت سوچ کے بغیر معاشرہ افراتفری کا شکار رہتا ہے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیا جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اسکی تصدیق کرلیا کرو‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کی ریاست طیبہ سے مماثلت ہے۔ دونوں ریاستیں کلمے کی بنیاد پر قائم ہوئیں۔ آرمی چیف نے باور کرایا کہ ہماری افواج ہر قسم کے خطرے اور سازش کیخلاف ہمہ وقت تیار ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ پاکستان نہیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ پاکستان اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگا۔
تقریب میں خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے ناسور کا جرات و بہادری سے مقابلہ کیا اور لازوال قربانیاں دی ہیں‘ پاک فوج نے پوری لگن اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی ہے۔ نوجوانوں کی شمولیت اور تعاون کے بغیر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فتح ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمیں ملک کیخلاف حال ہی میں ملک کے دشمنوں کی جانب سے پھیلائے گئے پراپیگنڈہ جیسے اقدامات کو مسترد کردینا چاہیے۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی سلامتی اور آزادی و خودمختاری ہی ہمارے لئے ہر چیز پر مقدم ہے جس پر کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے نہ اس کیخلاف ملک کے اندر اور باہر سے کوئی سازش ہمیں پنپنے دینی چاہیے۔ بے شک عساکر پاکستان ہی ملک کے دفاع و تحفظ کی ضامن ہیں جو اسکی مکمل اہل اور خداداد صلاحیتوں سے مالا مال بھی ہیں اور ہر درپیش چیلنج قبول کرکے دشمن کے دانت کھٹے کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ ہمارا کھلا دشمن بھارت قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہو گیا تھا جس کی ہندو لیڈر شپ کو یہ گمان تھا کہ ملک کی معیشت اور دفاع کو سنبھال نہ پانے کے باعث پاکستان جلد ہی واپس بھارت کی گود میں آگرے گا چنانچہ اسی زعم میں بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنا اولین ایجنڈا بنالیا۔
اس تناظر میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کو ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کا شروع دن سے ہی چیلنج درپیش ہو گیا جس میں قوم کے بے مثال تعاون سے ہماری قیادتیں اب تک سرخرو ہیں اور دشمن کی ہر سازش کو ناکامی سے ہمکنار کیا ہے۔ یہ چیلنج آج اس حوالے سے بھی گھمبیر ہو چکا ہے کہ ہمارے بیرونی دشمنوں کو ملک کے اندر سے ایسے عناصر دستیاب ہو گئے ہیں جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی الحادی قوتوں کی سازشوں میں ان کے آلہ کار بن کر ملک کے اداروں بالخصوص افواج پاکستان کیخلاف ان کی سازشوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھا رہے ہیں جس کا اصل مقصد پاکستان کے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا تاثر دینا ہے۔
یقیناً ان چیلنجوں کے تناظر میں ہی ملک کے آئین اور قانون کو دشمن کی پھیلائی ہائپرڈ وار کا مقابلہ کرنے کیلئے مربوط کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے دشمنوں کے پاس ملک اور اسکے اداروں کیخلاف مجہول پراپیگنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے اظہار رائے کی آزادی کا ہتھیار ہے چنانچہ ملک کے متعلقہ اور سکیورٹی ادارے بے لگام سوشل میڈیا کے ذریعے بے بنیاد اور زہریلا پراپیگنڈہ کرنیوالے عناصر کو قانون کی گرفت میں لاتے ہیں تو پاکستان کے دشمن اظہار رائے کی آزادی کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان پر آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے والے ملک کا لیبل لگانے کیلئے سوشل میڈیا پر اودھم مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ یقیناً پاکستان کے آئین کی دفعہ 19 میں اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دیا گیا ہے مگر یہ آزادی شتربے مہار تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمیں اظہار رائے کی آزادی مقصود ہے تو اس وطن عزیز پر کسی بھی جانب سے کوئی آنچ نہ آنے دینا بھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کیلئے پاکستان‘ اسکے نظریے اور ریاستی اداروں کی عزت و حرمت کا تحفظ و تقدس ملحوظ خاطر رکھنا بھی آئین کی دفعہ 19 کے تحت ہی ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری بنتی ہے۔
بے شک ہر ملک کو اپنا تحفظ وتقدس عزیز ہوتا ہے جس کیلئے ہر ملک کے قواعد وضوابط موجود ہیں چنانچہ ہر ملک کے شہریوں کو اس امر کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔ مغربی دنیا اظہار رائے کی آزادی کے تو ڈنکے بجاتی ہے مگر بالعموم اس آزادی کو ایک منظم سازش کے تحت مسلم دنیا اور شعائر اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنانے اور انکی تحقیر کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور جب بات مغربی ممالک کی آزادی و خود مختاری اور انکے مذاہب کی پاسداری تک آتی ہے تو اظہار رائے کی یہی آزادی قانونی جکڑ بندیوں کی متقاضی ہو جاتی ہے۔ آج سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کو پاکستان اور اسکے اداروں کیخلاف جس منظم سازش کے تحت استعمال کیا جارہا ہے‘ کیا اس خطے اور مغربی‘ یورپی دنیا کے دوسرے ممالک میں ملک اور اداروں کیخلاف اس نوعیت کا اودھم مچانے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں ملک کی آزادی و خودمختاری اور ریاستی اداروں کے تقدس کیخلاف سوشل میڈیا پر اودھم مچانے والے عناصر کی گرفت کیلئے قانون حرکت میں آیا ہے جس کا نگران وزیراعظم اور آرمی چیف نے گزشتہ روز اپنی تقاریر میں حوالہ دیا ہے۔
اس معاملہ میں صورتحال کی سنگینی کا ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایف آئی اے نے پاک فوج اور ججز کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے والے 550 سوشل میڈیا اکائونٹس کی نشاندہی کی ہے جن کیخلاف قانونی گرفت کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ان اکائونٹس میں سے 290 ٹویٹر (ایکس) اکائونٹس نامی گرامی صحافیوں‘ اینکروں‘ سیاست دانوں‘ وکلاء اور عام صارفین کے ہیں جبکہ فیس بک کے 140 اکائونٹس اس ہزرہ سرائی میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مشہور ٹک ٹاکرز‘ ماڈلز‘ یوٹیوبرز اور نظام عدل سے وابستہ بعض عناصر بھی فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانیوالی مہم کا حصہ ہیں جو سوشل میڈیا پر زیادہ تر مواد بیرون ملک سے ڈال رہے تھے۔ ان اکائونٹس سے ججز اور پاک فوج کیخلاف دس لاکھ کے قریب پوسٹیں سوشل میڈیا پر ڈالی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق مبینہ ملزمان کیخلاف قانون حرکت میں آچکا ہے تاکہ ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی اس سازش کے آگے موثر بند باندھا جا سکے۔ بے شک ملک کے ساتھ کھلواڑ کی ہر سازش کا سدباب ہی متعلقہ ریاستی‘ قانونی اور عدالتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔