صحافت کا ایک مسئلہ چند بھاری بھر کم اصطلاحات بھی ہیں۔انہیں کچھ دانشور گہری تحقیق کے بعد ایجاد کرتے ہیں۔ صحافی مگر انہیں ’’امرت دھارا‘‘ نامی شربت کی طرح تقریباََ ہر معاملے کی تفہیم کے لئے استعمال کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک اصطلاح ہے Youth Bulgeمیں اس کا سادہ ترین اردو متبادل ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔مذکورہ اصطلاح کا لہٰذا خلاصہ بیان کرنا ہوگا۔
یہ اصطلاح بنیادی طورپر ان ماہرین سماجیات نے متعارف کروائی تھی جو آبادی کے بڑھنے یا کم ہونے کی وجہ سے معاشروں میں آئی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اب تک آئی ہر حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ 1980ء میں مذہبی رحجانات انتہاء پسندی کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تو ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کو خلاف اسلام ٹھہرانے کی مہم بھی شروع ہوگئی۔ سرکار اس تصور کو ’’افغان جہاد‘‘ کی محبت میں نظرانداز کرتی رہی۔ اسے احساس تھا کہ کم آمدنی والے گھرانے اپنے بچوں کی کفالت کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مدرسوں کے سپرد کردیتے ہیں۔جو ملک میں سرکار کے بنائے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں خلیجی ممالک سے آئی امداد کی بدولت تیزی سے پھیل رہے تھے۔ وہاں بھیجے بچے ذہنی علوم کے حصول کے علاوہ ہمہ وقت ’’جہاد‘‘ کو بھی ذہنی طورپر تیار رہتے۔ اس ضمن میں مزید تفصیلات کا ذکر اصل موضوع سے توجہ ہٹادے گا۔ فقط یہ کہنا ہی کافی ہے کہ رواں صدی کا آ غاز ہوتے ہی ہمارے ہاں 30برس سے کم عمر کے لوگوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ ان دنوں ان کی تعداد ہماری کل آبادی کا 60فی صد سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ اس بھاری بھر کم تعداد کو ماہرین سماجیات نے Bulgeیعنی ’’پھولاہوا‘‘ پکارا۔
18سے 30برس کے درمیان والی عمر کے نوجوانوں کو ، جو اب ہماری آبادی کا غالب حصہ بن چکے ہیں زندگی سے مایوس اور بیزار بتایا جاتا ہے۔ خبردار یہ بھی کیا جارہا ہے کہ نظام کہنہ میں اپنی نمو کے امکانات نہ دیکھنے کے سبب ہماری آبادی کا یہ غالب حصہ بتدریج ’’انقلابی‘‘ بن رہا ہے۔وہ موجود سے مطمئن نہیں او ر بقول اقبال ’’ستاروں پر کمند ڈالنے‘‘ کو بے تاب ہے۔ ان نوجوانوں کا غالب ترین حصہ تحریک انصاف کا جنونی حامی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بھی فرض کرلیا گیا ہے کہ نوجوان عاشقان عمران خان تحریک انصاف کے قائد کے علاوہ وطن عزیز کے تمام سیاستدانوں کو نااہل اور بدعنوان سمجھتے ہیں۔ریاست کے دائمی ادارے بھی ان کے ’’جنون‘‘ سے لرزرہے ہیں۔
8فروری2024ء کے دن انتخاب ہونا ہیں۔ توقع باندھی جارہی ہے کہ اس روز 18سے 30برس کے درمیان والی عمر کے نوجوانوں کی بھاری بھر کم تعداد ازخود گھروں سے باہر نکل کر پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچ جائے گی۔ سوشل میڈیا سے نوجوانوں کی رغبت دیکھتے ہوئے تحریک انصاف نے متاثر کن مہارت سے ایسی ایپس بھی متعارف کروادی ہیں جن کی بدولت آپ موبائل فون کے ذریعے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ آپ جہاں رہتے ہیں وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا کونسا حلقہ بنتا ہے۔ وہاں تحریک انصاف نے کس امیدوار کو نامزد کررکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ سہولت کہ بلے سے محروم ہوئی تحریک انصاف کے آپ کے حلقے میں نامزد کردہ امیدوار کا انتخابی نشان کیا ہے۔فرض کرلیا گیا ہے کہ شہر شہر جاکر مختلف ٹی وی چینلوں کے لئے ہاتھ میں مائیک پکڑکر سروے کرنے والے صحافی ایسے ووٹروں کی حتمی تعداد کا اندازہ نہیں لگاپائے جو 8فروری 2024ء کے دن ازخود گھروں سے نکلیں گے اور تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالتے ہوئے حیران کن ’’تاریخ‘‘ بنادیں گے۔
بڑھتی عمر اور چند طبی مشکلات مجھے حلقوں میں جانے سے روکے ہوئے ہیں۔گزشتہ ایک مہینے سے تاہم میں نے اپنے ٹی وی شو کے لئے ساتھی میزبان عدنان حیدر کی لگن اور توانائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں پر چھائے ماحول کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔جو حقائق کیمرے پر ریکارڈ ہوکر مجھ تک پہنچے ہیں وہ روایتی اور سوشل میڈیا پر مقبول چند مفروضوں کو ٹھوس حوالوں سے جھٹلاتے محسوس ہوئے۔
تحریک انصاف کا انتہائی متعصب ناقد ہی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا کہ یہ جماعت اپریل 2022ء سے عوامی مقبولیت کی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ عمران خان ہماری آبادی کے کماحقہ حصے کو یہ تصور کرنے پر حیران کن انداز میں قائل کرچکے ہیں کہ امریکہ ان کی آزادمنش خارجہ پالیسی سے گھبرا گیا تھا۔عمران حکومت سے خفگی مگر اس وقت مخاصمت میں بدل گئی جب روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے ایک دن قبل سابق وزیر اعظم ماسکو پہنچ گئے اور صدر پوٹن سے طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد عمران حکومت کے بیانیہ سازوں نے داستان یہ سنائی کہ پوٹن/ عمران ملاقات سے خفا ہوکر بائیڈن انتظامیہ نے امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر ڈونلڈ لوکو پاکستان کے ان دنوں واشنگٹن میں تعینات سفیر اسد مجید خان سے ملاقات کو بھیجا۔ جب ملاقات ہوگئی تو اس کے دوران تڑی لگائی کہ اگر عمران خان اپنے تئیں آزاد منش رویے سے باز نہ آئے تو امریکہ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کواپنی سرپرستی میں یکجا کردے گا۔ و ہ باہم مل کر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹادیں گی۔
عمران خان اور ان کے بیانیہ سازوں نے جو داستان گھڑی اسے روایتی اور سوشل میڈیا ہی پر نہیں بلکہ تحریک انصاف کے قائد نے روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے ہر شہر جاکر عوامی اجتماعات سے خطاب کے ذریعے بھرپور انداز میں فروغ دیا۔ شہباز حکومت کے بیانیہ ساز تحریک انصاف کی پھیلائی داستان کو مہارت سے جھٹلانہیں پائے۔ عوام کو یہ احساس بھی نہ دلاسکے کہ اگر وہ بائیڈن انتظامیہ کے واقعتاچہیتے تھے تو آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے شہباز حکومت کو عوام پر مہنگائی کا عذاب مسلط کرنے کو مجبور کیوں کیا۔شہباز حکومت کے علاوہ قمر جاوید باجوہ بھی اپنے عہدے کی میعاد میں مزید اضافے کے لالچ میں ’’میر جعفر‘‘ کا طعنہ سننے کے باوجود تحریک انصاف کے قائد سے ایوان صدر میں ملاقاتیں کرتے رہے۔ وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہوئے موصوف نے عمران خان کو لوگوں کی نظر میں سچا ہی نہیں بلکہ جی دار بھی ثابت کیا جو ’’تاریخ میں پہلی بار اصل حکمرانوں کو للکاررہا ہے‘‘۔
18سے 30برس کے درمیان والی عمر کے نوجوانوں کی موثر تعداد تحریک انصاف کی سنائی داستان پر دل وجان سے اعتبار کرتی ہے۔انتخابی مہم میں لیکن وہ گرائونڈ پر بہت منظم انداز میں متحرک نظر نہیں آرہے۔ فرض کرلیتے ہیں کہ وہ اپنا ’’جلوہ‘‘ 8فروری کے دن ہی دکھائیں گے اور خود کو ریاستی جبر سے بچانے کے لئے فی الوقت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔کیمروں کے روبرو کھل کر بات کرنے والے نوجوانوں کی نمایاں تعداد مگر تحریک لبیک کی حامی بھی ہے جو اس دعوے کو جھٹلاتا ہے کہ 18سے 30برس کے درمیان والی عمر کے تمام پاکستانی صرف تحریک انصاف کے حامی ہیں۔
نوجوان نسلوں کا اضطراب انہونی بات نہیں۔روسی انقلاب سے کئی دہائیاں قبل تورگنیف نے ایک شہرہ آفاق ناول لکھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ اس کا عنوان تھا۔ مذکورہ ناول کا ہیرو بھی نظام کہنہ سے اکتایا ایک منہ پھٹ نوجوان تھا۔ اپنے اہداف مگر طے نہیں کرپایا اور بالآخر تنہائی میں ا یک موذی مرض کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بعد دوستو فسکی بھی بہت مشہور ہوا۔ لکھاری بننے سے قبل اس نے ’’انقلاب‘‘ لانے کی کوشش کی تھی۔اس کا گروہ گرفتار ہواا ور سخت سزائوں سے دو چار۔ اپنی رہائی کے بعد دوستو فسکی نے جو ناول لکھے وہ ریاست کی قوت کے آگے عام افراد کی بے بسی کا اظہار ہی کرتے رہے۔ کالم کی طوالت سے گھبرا کر یہ عرض کرتے ہوئے بات ختم کرنا ہوگی کہ فقط Youth Bulgeہی پاکستان جیسے ملکوں میں ’’انقلاب یقینی نہیں بناتا۔ بہت سے عوامل باہم مل کر ہی کسی معاشرے میں بتدریج ’’تبدیلی‘‘ کو یقینی بناتے ہیں۔