ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی سوچ اور اپروچ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی علمی وجاہت اور ثقاہت سے انکار ممکن نہیں۔ مولانا ابولکلام آزاد کی ایک مشہور تقریر کا اقتباس ہے جس میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وہ ہمارے ہی آبا تھے جو سمندروں میں اتر گئے، پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا ، بجلیاں آئیں تو ان پہ مسکرا دیے، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھی تو رخ پھیر دیا، ہوائیں چلیں تو کہا جائو تمھارا راستہ یہ نہیں۔ آج ہمارے ایمان کی جان کنی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آپس میں دست و بہ گریبان ہیں اور خدا سے اس درجہ غافل ہیں کہ جیسے کبھی اس پر ایمان نہ تھا۔ یاد کرو، وہ وقت جب تم ہندوستان میں آئے، تب تم انگلیوں پر گنے جاتے تھے تم نے گنگا اور جمنا کے پانیوں سے وضو کرکے بتکدہ ہند میں نعرہ توحید بلند کیا تھا۔ اس وقت تمھارے لیے نہ خوف تھا نہ ڈر تھا۔‘‘
توحید کی برکت سے جس ہندوستان پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی تھی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کے لیے اجنبی ہوچکی ہے۔ اس ہندوستان میں مسلمانوں کی عزتیں محفوظ رہیں، نہ مسجدیں اور نہ جان ومال۔ جس کی تازہ مثال بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہے۔ بابری مسجد نہ تو اچانک شہید کی گئی تھی اور نہ ہی اس جگہ راتوں رات رام مندر تعمیر ہوا ہے بلکہ سالہا سال میں یہ دونوں پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ بابری مسجد جب شہید کی گئی اس وقت بھارت کے مسلمانوں نے مقدور بھر احتجاج کیا اگرچہ اس احتجاج کی انھیں بھاری جانی مالی قیمت ادا کرنا پڑی لیکن اب جبکہ نریندر مودی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی پہلی منزل کا افتتاح کیا ہے تو چہار سو سناٹا ہے۔ پاکستان جو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا وکیل تھا اس پاکستان کے حکمرانوں نے رام مندر کی تعمیر کو ایک اخباری بیان پر ٹرخا دیا ہے۔ جہاں تک بھارت کے مسلمانوں کا تعلق ہے۔ وہ بیچارے کریں تو کیا کریں۔ جائیں تو کہاں جائیں۔ جس پاکستان کے قیام کے لیے انھوں نے جانی مالی قربانیاں دی تھیں۔ اس پاکستان نے ان سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے بھارتی مسلمانوں میں احتجاج کی سکت بھی نہیں رہی۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ پاکستان بھارت میں رہ جانے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو بھول چکا ہے۔ پاکستان کے قیام کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں ان علاقوں کے مسلمانوں نے دی تھیں جہاں وہ خود اقلیت میں تھے اور ہندو اکثریت میں تھے۔ اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا نہ صرف عہد کیا بلکہ یہ عہد ایفا بھی کردیا تو وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے انھوں نے کہا تھا، ہمارے بھائیو، پاکستان بن جانے کے بعد ہم تمہیں بھولیں گے نہیں۔
23مارچ 1940ء کو جب لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو اس میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں جب وہ قراداد پیش کی گئی جو تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی تو اس کے بعد مسلمانوں کی خوشی کا دیدنی عالم تھا۔ تب میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک نمائندے سید ر?ف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’جان سے عزیز بھائیو!جب آپ آزاد اور خود مختار ہو جائیں گے تو بھارت کے ہندو ہمیں نیست و نابود کر دیں گے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جائے گی، ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی، اس کے باوجود ہم خوش ہوں گے کہ کم از کم آپ تو آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ جب آپ آزاد ہو جائیں اور آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لیے بھی دعائے مغفرت کر لیا کرنا۔‘‘ سید رئوف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے، ہزاروں شرکائے اجلاس کوبھی رولا دیا۔ آخر میں کہنے لگے ’’بھائیو، میرے آنسو اس لیے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے، ہمیں چیریں پھاڑیں گے بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے ملک میں زندگی بسر کریں گے جو آزاد ہو گا اور جس کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہو گی۔‘‘ سید رئوف شاہ نے جب یہ بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہو گئی، آنسو بے قابو ہو گئے، ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب حاضرینِ اجلاس میں سے بعض اٹھے اور کہا پاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کا بھی ہوگا، یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو گا۔ ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کو بھولیں گے اور نہ بے یار و مددگار چھوڑ یں گے۔ آپ کا تحفظ اور مدد ہمارا اولین فرض ہوگا۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمان سمجھتے تھے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا ان کی عزت وعصمت کا محافظ و نگہبان ہوگا۔ پاکستان سے پھر محمد بن قاسم اور محمود غزنوی جیسے مجاہد پیدا ہوں گے جو ان کی ما?ں بہنوں، بیٹیوں اور مسجدوں کی حفاظت کریں گے۔ ان کی طرف بڑھنے والے ہندئووں کے ہاتھ کاٹیں گے۔
یہ تھے 23مارچ1947ء کے موقع پر مسلمانوں کے احساسات اور جذبات۔ افسوس صد افسوس آج ہم یہ سب کچھ بھول گئے۔ بابری مسجد شہید کر دی گئی ہماری غیرت ایمانی نہ جاگی۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوگیا۔ تب بھی ہمارے حکمران، سیاستدان، تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اور میڈیا خاموش تماشائی بنے رہے۔
بابری مسجد جو کعبہ کی بیٹی تھی، عالی شان تھی اس کا نام و نشان بھی مٹادیا گیا۔ بابری مسجد کو شہید لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں یہ سوچ کر کہ جب گائو ماتا اور بتوں کے پجاری اس کے گنبدوں پر چڑھے، ان پر کدالیں چلانا شروع کیں تو کعبے کی بیٹی چلاتی رہی کہ محمود غزنوی کے فرزند کدھر ہیں؟ ظہیر الدین بابر کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں کیوں خاموش ہیں؟ کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے، کون ہے جو مجھے گائو ماتا کے پجاریوں سے بچائے۔
بابری مسجد کو بچانے پاکستان پہنچا نہ کوئی دوسرا مسلمان ملک۔ مسجد کو بچانے کیلئے صدائے احتجاج بھارت کے مسلمانوں نے ہی بلند کی جس کی انھیں بھاری جانی مالی قیمت چکانا پڑی۔ اس کے بعد مسلمان سپریم کورٹ پہنچے ان کا خیال تھا کہ شاید سے انھیں یہاں سے انصاف ملے گا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ عدلیہ کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے جہاں انصاف کا ترازو تھامے منصف بیٹھے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ عدلیہ میں بیٹھے جج بھی ہندو پہلے اور جج بعد میں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے وقت جنونی ہند?وں نے مسلمانوں کا خون بہایا ایسے ہی بھارتی عدلیہ نے بھی انصاف کا قتل عام کیا۔ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کی پٹیشن کے جواب میں جو فیصلہ سنایا وہ بھی دنیا کی تاریخ کا انوکھا فیصلہ تھا ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا اگرچہ ہمیں کسی مندر کے آثار نہیں ملے تاہم جھگڑا نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مندر بنادیا جائے۔ بہر حال مندر بن گیا اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ مندر زمین پر نہیں مسلمانوں کی غیرت ایمانی سے تہی لاشوں پر بنا ہے۔ جب غیرت مر جائے اور ایمان مردہ ہوجائیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ اب بھی وقت ہے مسلمان سنبھل جائیں، پاکستان کے حکمران، سیاستدان، جرنیل اپنی ذمہ داری کو سمجھیں نفرت اور انتقام کی جس آگ میں ہمارے ہندوستانی مسلمان جل رہے ہیں اسے بجھائیں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ آگ ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔