دلداریاں
رانا فاروق دِلدار
farooqdildar98@gmail.com
ماضی میں جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا لگا یا تو مسلم لیگ ن کے لئے بہت مشکل اور کھٹن مرحلہ تھا ۔ مسلم لیگ ن کی تقریباََ ساری ہی قیادت پابندِ سلاسل تھی میاں نواز شریف سے لیکرتمام دوسرے رہنما قید و بند کی صوبتیں برداشت کر رہے تھے ۔اُس مشکل وقت میں جو لوگ میاں نواز شریف کو چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں چلے گئے یا پرویز مشرف کے دربار میں حاضر ہو گئے اُن کے لئے جیل سے رہائی ممکن ہوئی۔اور پھر اُن لوگوں نے مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ ن کا سیاسی مستقبل ختم ہے۔اُن سیاسی رہنمائوں میں دانیال عزیز بھی سرفہرست تھے جو اُس وقت میاں نواز شریف پر طنز و تنقید کے تیرنچھاورکرتے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے گن گاتے تھے۔
اُس مشکل وقت میں جو انسان چٹان کی طرح کھڑا رہا اوراپنے نظریہ پر سمجھوتہ نہیں کیا ، تمام مشکلا ت برداشت کیں لیکن مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو دھوکہ نہیں دیا حالانکہ وہ چاہتے تو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنی زندگی آسان بنا سکتے تھے ۔اقتدار کے ایوان میں مزے کی زندگی گزار لیتے لیکن انہوںنے نہ تو جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی اپنے نظریہ پر سمجھوتہ کیا ۔اس دلیر شخصیت کا نام احسن اقبال ہے۔2018 میں بھی جب میاں نواز شریف جیل میں تھے اور مسلم لیگ ن ایک بار پھر مشکل میں تھی اُس وقت الیکشن لڑنا مسلم لیگ ن کے لئے بہت مشکل تھا تب بھی احسن اقبال فرنٹ فٹ پر اپنی پارٹی کا دفاع کرتے رہے اوران کو اس چیز کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ ایک جلسے میں اُن پر فائرنگ سے حملہ کیاگیا اور گولی اُن کے بازو میں لگی ۔قدرت نے انہیں نئی زندگی سے نوازا۔اُس مشکل کا بھی احسن اقبال نے بہادری سے مقابلہ کیا اور اپنی الیکشن کمپین جاری رکھی اور ایک بار پھر بڑے مارجن سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔
دوسری طرف جب جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا اُس وقت بہت سے لوگوں نے اُن سے منہ پھیرنا شروع کردیا اُن میں دانیال عزیز بھی شامل تھے ۔دانیال عزیزنے اب مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیئے دوسری طرف احسن اقبال جو مشکل وقت میں نواز شریف کے ساتھ رہے اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی تھے اُن کی مشاورت کے بغیر دانیال عزیز کی مسلم لیگ ن میں شمولیت مشکل نظر آرہی تھی۔
دانیال عزیز نے جب 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے لئے درخواست جمع کروائی تو پارٹی اُن کو ٹکٹ نہیں دینا چاہتی تھی کیونکہ ماضی میں وہ مسلم لیگ ن پر بہت طنز و تنقید کے تیر نچھاور کرتے رہے تھے ،پارٹی اس لئے انہیں ٹکٹ نہیں دینا چاہتی تھی۔ اُس وقت احسن اقبال نے بیس منٹ کی تقریر کی اور دانیال عزیز کی ٹکٹ کی رہ ہموار کی جس کے بعد دانیال عزیز الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔
ایک بار پھر دانیال عزیز نے پریس کانفرنس کرکے پاکستانی معیشت کا ذمہ دار احسن اقبال کو دیا ۔ مسلم لیگ ن نے دانیال عزیز کو شوکاز نوٹس جاری کیا لیکن دانیال عزیز نے اُس کو ماننے سے انکار کردیا اور پارٹی ٹکٹ کے لئے بھی درخواست جمع نہیں کروائی۔دوسری طرف احسن اقبال کا کہنا ہے کہ کچھ ذمہ دار حلقوں نے آگاہ کیا ہے کہ دانیال عزیز پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہشمند تھے انہوں اس لئے ٹکٹ کے لئے درخواست جمع نہیں کروائی۔
احسن اقبال نے جہاں پارٹی کے لئے بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں وہیں انہوں نے پارٹی کو مضبوط کرنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ناروال میں یونیورسٹی اور ناروال سپورٹس سٹی کا قیام بھی انہی کی کوشش کی بدولت عمل میں آیا ۔بہت سے ترقیاتی کام کروانے کے لئے احسن اقبال نے دن رات محنت کی۔
احسن اقبال کے بیٹے احمد اقبال اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جنہوں نے اپنے ضلعی چیئرمین کے دور میں ناروال کے لئے بہت سے ترقیاتی کام کروائے ۔ انہوں نے ناروال کے تعلیمی شعبے کو بہت ترقی دی جس سے آج ناروال کے بچے اور بچیاں تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔احمد اقبال نے بلدیاتی اداروں کی جنگ بھی بڑی جراتمندی سے لڑی۔ انہوں نے ہر فارم پر بلدیاتی اداروں کا مقدمہ پیش کیا اُن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے بغیر ہم کبھی بھی ترقی حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی عام بندے کو اُس کا بنیادی حق دے سکتے ہیں۔
آخر میںیہ ضرور کہوں گا جو لوگ مشکل کے ساتھی ہوتے ہیں ہمیشہ عزت بھی اُن کے حصے میں آتی ہے۔اب فیصلہ ناروال کی عوام کاہوگا۔